غیر مسلم سے دوستی پر پابندی


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا حامی نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں حامی ضرور ہیں اور تم میں سے جو انہیں حامی بناتا ہے وہ یقینا انہی میں (شمار) ہو گا، بے شک اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔

51۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ ولایت کا رشتہ قائم کرنے کی ممانعت ہے، لیکن اس ولایت سے مراد کیا ولایت نصرت و معاہدہ ہے یا ولایت محبت و ہمدردی ہے۔ کیونکہ اولیاء میں دونوں معنوں کے لیے گنجائش موجود ہے۔ ہماری نظر میں یہاں ولایت سے مراد ولایت حمایت ہے۔ واضح رہے موضوع کلام انفرادی حمایت اور یاری نہیں ہے بلکہ جب مسلمان یہود و نصاریٰ کے ساتھ برسرپیکار ہوں تو من حیث القوم ان کی حمایت ممنوع ہے، چونکہ ان کی حمایت کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ان کی اسلام دشمن پالیسیوں سے اسے نفرت نہیں ہے۔

بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ : یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے حامی ہیں۔ یہود و نصاریٰ آپس میں خواہ کتنی ہی دشمنی و عداوت کا اظہار کریں یہ لوگ اسلام دشمنی میں آپس میں ایک دوسرے کے حامی ہیں

وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ : جو ان سے دوستی کرے گا اس کا شمار انہی میں ہو گا، کیونکہ احساس و شعور جس کے حق میں ہو گا محبت بھی اسی سے ہوتی ہے اور قلبی لگاؤ اور محبت کے آثار کردار میں نمودار ہوتے ہیں، لہٰذا جس قوم سے دوستی ہو گی اس کا شمار اسی قوم سے ہونا ایک طبیعی امر ہے۔