نظریہ رویت اور عذاب الٰہی


وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور (یاد کرو وہ وقت) جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں، اس پر بجلی نے تمہیں گرفت میں لے لیا اور تم دیکھتے رہ گئے۔

55۔ قوم موسیٰ علیہ السلام نے کہا : ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ آپ علیہ السلام سے ہمکلام ہوتا ہے اور آپ علیہ السلام اس کے نبی ہیں، کیونکہ وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہم اس وقت تک آپ علیہ السلام کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے جب تک خدا کو ظاہری آنکھوں سے علانیہ دیکھ نہ لیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ستر معتبر افراد کو لے کر کوہ طور پر گئے اور خدا سے آشکار ہونے کا مطالبہ کیا جس پروہ سب صَاعِقَہ کی نذر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ جہالت پر مبنی ہونے کے علاوہ شان خداوندی کے منافی تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑی سرعت سے بلا فاصلہ نازل ہوا۔