سَتَجِدُوۡنَ اٰخَرِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّاۡمَنُوۡکُمۡ وَ یَاۡمَنُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ کُلَّمَا رُدُّوۡۤا اِلَی الۡفِتۡنَۃِ اُرۡکِسُوۡا فِیۡہَا ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَعۡتَزِلُوۡکُمۡ وَ یُلۡقُوۡۤا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکُمۡ جَعَلۡنَا لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿٪۹۱﴾

۹۱۔ عنقریب تم دوسری قسم کے ایسے (منافق) لوگوں کو پاؤ گے جو تم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، لیکن اگر فتنہ انگیزی کا موقع ملے تو اس میں اوندھے منہ کود پڑتے ہیں، ایسے لوگ اگر تم لوگوں سے جنگ کرنے سے باز نہ آئیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام نہ دیں اور دست درازی سے بھی باز نہ آئیں تو جہاں کہیں وہ ملیں انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان پر ہم نے تمہیں واضح بالادستی دی ہے۔

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ یَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا ۚ وَ مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـًٔا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّصَّدَّقُوۡا ؕ فَاِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّکُمۡ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ وَ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ ۫ تَوۡبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور کسی مومن کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر دے مگر غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے وہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو خونبہا ادا کرے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پس اگر وہ مومن مقتول تمہاری دشمن قوم سے تھا تو (قاتل) ایک مومن غلام آزاد کرے اور اگر وہ مقتول ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے ورثاء کو خونبہا دیا جائے اور ایک غلام آزاد کیا جائے اور جسے غلام میسر نہیں وہ دو ماہ متواتر روزے رکھے، یہ ہے اللہ کی طرف سے توبہ اور اللہ بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

92۔ اس بیان کے بعد کہ منافقین کا قتل کن صورتوں میں جائز ہے، مومن کے قتل کا ذکر آیا ہے کہ دار الکفر میں موجود منافق اور کافروں کو قتل کرنے کے ضمن میں اگر غلطی سے کوئی مؤمن قتل ہو جائے تو: ٭ اگر وہ مؤمن غیر ارادی طور پر قتل ہو جائے تو قاتل ایک مؤمن غلام آزاد کرے اوردیت بھی ادا کرے۔٭ اگر مقتول کافر قوم کا ایک مؤمن فرد تھا تو قاتل غلام آزاد کرے، دیت دینا واجب نہیں ہے کیونکہ دیت ورثاء کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ یہاں وارث کافر ہیں اور کافر مؤمن کا وارث نہیں بن سکتا۔٭ اگر مقتول ایسی قوم کا فرد ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہے تو غلام آزاد کرنا ہو گا اور ساتھ دیت بھی دینا ہو گی۔ یہاں دیت کی مقدار وہی ہو گی جو معاہدے میں طے ہے۔ یہاں قتل کی تین قسمیں ہیں:٭ قتل عمد، اس کی سزا قصاص اور دیت ہے۔ ٭ شبہ عمد، یعنی ضرب تو مثلا ً جان بوجھ کر لگائی مگر قتل کا ارادہ نہ تھا اتفاقاً قتل ہو گیا۔ اس کی سزا دیت ہے قصاص نہیں اور دیت خود قاتل کے ذمے ہے۔ ٭ قتل خطا، قتل کا ارادہ تو نہ تھا مگر وہ زد میں آ گیا اور قتل ہو گیا اس کی سزا دیت ہے جو قرابتداروں کے ذمے ہے۔

وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا﴿۹۳﴾

۹۳۔اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہو گی اور ایسے شخص کے لیے اس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

93۔ کسی مومن کو جان بوجھ کر جان سے مار دینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں : 1۔ اگر مومن ہونے کی وجہ سے اس کا خون حلال سمجھ کر قتل کرتا ہے تو اس صورت میں قاتل ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اس پر خدا کا غضب اور اس کی رحمت سے بھی دور ہو گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ 2۔ قتل کا محرک مقتول کا مومن ہونا نہ ہو اور نہ ہی اسے جائز القتل اور اس کا خون حلال سمجھ کر قتل کیا ہو تو اس صورت میں کیا اس قاتل کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ چند اقوال ہیں۔ اہل تحقیق کے نزدیک اس کی توبہ قابل قبول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۔ (4 نساء :48) اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا : اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۔ (39 زمر: 53) یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آیات مذکورہ آیت کے لیے مقید ثابت ہوں اور یہ گناہ قابل توبہ و مغفرت ہو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۹۴﴾

۹۴۔ اے ایمان والو! جب تم راہ خدا میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو، جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں، پہلے خود تم بھی تو ایسی حالت میں مبتلا تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، یقینا اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

94۔ السلام علیکم کہنا شروع میں مسلمانوں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بعض جنگوں میں جب کوئی مسلمان لپیٹ میں آ جاتا تو وہ یہ بتانے کے لیے کہ میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں سلام کرتا اور کلمہ پڑھ دیتا، مگر مسلمان اسے قتل کر دیتے اس گمان سے کہ اس نے صرف جان بچانے کے لیے ایسا کیا ہے۔اس آیت سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ کلمہ گو اور اہلِ قبلہ تو بجائے خود، اسلامی آداب و شعائر کا اظہار کرنے والے پر بھی اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں اور اس کا جان و مال محفوظ ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: لانکفراھل القبلۃ بذنب ۔ صاحب تفسیر المنار نیم خواندہ، تنگ نظر لوگوں کے بارے میں درست لکھتے ہیں: کہاں یہ بات اور کہاں ان لوگوں کا کردار جو نہ اپنے اسلام میں نہ اپنے اعمال میں کتاب اللہ سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور اپنی خواہشات سے ذرا اختلاف رکھنے والے اہلِ قبلہ کو کافر قرار دینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔

لَا یَسۡتَوِی الۡقٰعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الۡمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿ۙ۹۵﴾

۹۵۔ بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مؤمنین اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

95۔ گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے۔ یہ جہاد فرض کفایہ ہونے کی صورت میں ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے کفایت کے لڑنے والے موجود ہیں۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کا درجہ اگرچہ کم ہے تاہم ان کے لیے بھی نیک وعدہ ہے، لیکن اگر جہاد کے لیے کفایت کے لوگ موجود نہ ہوں یہ جہاد واجب عینی ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں جہاد میں شرکت نہ کرنے والے میدان جنگ سے فرار کرنے والوں کی طرح ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے نیک وعدوں میں شامل نہیں ہوتے۔

دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ وَ مَغۡفِرَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿٪۹۶﴾

۹۶۔(ان کے لیے) یہ درجات اور مغفرت اور رحمت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿ۙ۹۷﴾

۹۷۔ وہ لوگ جو اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں: تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم اس سر زمین میں بے بس تھے، فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی سرزمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

97۔ ظلم سے مراد دین حق سے انحراف کر کے اپنے آپ پر ظلم کر نا ہے۔

اس آیت میں مرنے کے بعد سوال قبر کی طرف اشارہ ہے۔ فرشتوں کا سوال مرنے والے کے دین کے بارے میں ہو گا کہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ مرنے والا جواب دے گا کہ جس سرزمین میں میں زندگی گزار رہا تھا، وہاں دین پر عمل پیرا رہنا ممکن نہ تھا۔ فرشتے کہیں گے کہ اگر تم کفار کی سرزمین پر اپنے دین اور مذہب کا تحفظ نہیں کر سکتے

تھے تو اللہ کی سرزمین تو وسیع تھی اور ایسی سرزمین بھی موجود تھی جہاں دین حق کی فضا قائم تھی، تم نے وہاں ہجرت کیوں نہ کی ؟اور دار الاسلام میں تمہیں بہتر زندگی بھی میسر تھی۔

اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَۃً وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۸﴾

۹۸۔بجز ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کے جو نہ کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں۔

فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّعۡفُوَ عَنۡہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوۡرًا﴿۹۹﴾

۹۹۔ عین ممکن ہے اللہ انہیں معاف کر دے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔

98۔ 99۔ حِیۡلَۃً : اس تدبیر کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز تک پوشیدہ طور سے پہنچا جا سکے۔ عام طور پر اس کا استعمال بُری تدبیر کے لیے ہوتا ہے، لیکن کبھی ایسی تدبیر کے متعلق بھی ہوتا ہے جس میں حکمت اور مصلحت ہوتی ہے۔ (مفردات راغب)

سابقہ آیات میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو حقیقتاً بے بس اور مجبور نہ تھے، وہ اپنے دین کی خاطر ہجرت کرنے پر قادر تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو واقعی بے بس اور مجبور تھے اور ہجرت کرنے کا کوئی وسیلہ نہیں تھا اور کوئی قابل عمل تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی تھی۔

وَ مَنۡ یُّہَاجِرۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یَجِدۡ فِی الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا وَّ سَعَۃً ؕ وَ مَنۡ یَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَیۡتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ یُدۡرِکۡہُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔ اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سی پناہ گاہیں اور کشائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے پھر (راستے میں) اسے موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا،رحم کرنے والا ہے۔

100۔ ہجرت سے انسان ارتقائی منازل آسانی سے طے کر لیتا ہے اور ہجرت میں طبعی طور پر برکت بھی ہے اور اگر یہ ہجرت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہو تو قرآن فرماتا ہے: مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا ۔ اسے زندگی کے لیے بہت پناہ گاہیں ملیں گی۔ اگر ایک جگہ رہنے نہ دیا تو دوسری جگہ، نہیں تو تیسری جگہ، جو کہ زمین خدا کے وسیع ہونے کا لازمی نتیجہ ہے نیز فرمایا: وَّ سَعَۃً بسر اوقات میں کشائش آئے گی۔ یعنی اگر وہ دار الکفر میں تنگی میں تھا تو ہجرت کے بعد کشائش آئے گی۔