قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ اَنۡتَ وَلِیُّنَا مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ بَلۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ ۚ اَکۡثَرُہُمۡ بِہِمۡ مُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ وہ کہیں گے: پاک ہے تیری ذات، تو ہی ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہی کو مانتی ہے۔

فَالۡیَوۡمَ لَا یَمۡلِکُ بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ نَّفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا ؕ وَ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ذُوۡقُوۡا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ لہٰذا آج تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا اور ظالموں سے ہم کہدیں گے: اب چکھو اس جہنم کا عذاب جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیۡدُ اَنۡ یَّصُدَّکُمۡ عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُکُمۡ ۚ وَ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکٌ مُّفۡتَرًی ؕ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور جب ان پر ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں: یہ شخص تو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روکنا چاہتا ہے اور کہتے ہیں: یہ (قرآن) تو محض ایک خود ساختہ جھوٹ ہے اور کفار (کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ان) کے پاس جب بھی حق آیا تو کہنے لگے: بے شک یہ تو ایک کھلا جادو ہے۔

وَ مَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ کُتُبٍ یَّدۡرُسُوۡنَہَا وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ قَبۡلَکَ مِنۡ نَّذِیۡرٍ ﴿ؕ۴۴﴾

۴۴۔ اور نہ تو ہم نے پہلے انہیں کتابیں دی تھیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ہی آپ سے پہلے ہم نے ان کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا بھیجا ہے۔

44۔ ان کا انکار کسی علم اور سند کی بنیاد پر نہیں ہے کیونکہ منکرین ناخواندہ لوگ ہیں۔ انہیں کتاب ملی ہے اور نہ ان کی طرف نبی مبعوث ہوئے، البتہ سابقہ انبیاء کا پیغام ان تک پہنچ گیا تھا، مگر یہ لوگ اسے نہیں مانتے تھے۔

وَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۙ وَ مَا بَلَغُوۡا مِعۡشَارَ مَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ فَکَذَّبُوۡا رُسُلِیۡ ۟ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ﴿٪۴۵﴾

۴۵۔ اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کی تکذیب کی تو (دیکھ لیا) میرا عذاب کتنا سخت تھا۔

45۔ یعنی پچھلی قوموں کو جو ثروت و سلطنت دی گئی تھی مکہ والوں کے پاس اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ وہ قوت و سلطنت کے باوجود نابود ہو گئے تو مکہ والوں کی کیا حیثیت ہے؟

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَعِظُکُمۡ بِوَاحِدَۃٍ ۚ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلّٰہِ مَثۡنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوۡا ۟ مَا بِصَاحِبِکُمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ لَّکُمۡ بَیۡنَ یَدَیۡ عَذَابٍ شَدِیۡدٍ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کہدیجئے: میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو ایک ایک اور دو دو کر کے پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی میں جنون کی کوئی بات نہیں ہے، وہ تو تمہیں ایک شدید عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہے۔

46۔ جو لوگ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مجنون کہتے ہیں، انہیں اللہ ایک بات کی نصیحت فرماتا ہے۔ وہ نصیحت یہ ہے کہ صحیح طرز تفکر اور طریقہ تعقل اختیار کرو، یعنی تم اپنے معاشرتی، ذہنی اور فکری عوامل سے الگ ہو کر تنہائی میں سوچ لو یا دو دو کر کے باہمی مذاکرات اور تبادلہ افکار کے ذریعے سوچنے کی عادت ڈالو اور دیکھو میں نے تمہارے درمیان چالیس سال تک زندگی گزاری ہے۔ کسی مرحلے پر تم نے مجھے عقل و خرد میں نہ صرف خفیف نہیں پایا بلکہ مشکل حالات میں میری عقل و خرد سے تم نے فائدہ اٹھایا ہے۔

قُلۡ مَا سَاَلۡتُکُمۡ مِّنۡ اَجۡرٍ فَہُوَ لَکُمۡ ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۴۷﴾

۴۷۔ کہدیجئے: جو اجر (رسالت) میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی لیے ہے، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

47۔ جو صلہ میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے لیے ہے۔ اس سے ایک تو یہ مطلب واضح ہوا کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امت سے اجر رسالت طلب فرمایا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس اجر میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذاتی مفاد نہیں ہے، بلکہ خود امت کا مفاد ہے۔ جبکہ جو اجر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس وضاحت سے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اجر رسالت طلب کرنا ثابت ہوا جو اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (یونس: 72) میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے، کے منافی بھی نہیں ہے۔

قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ ۚ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۴۸﴾

۴۸۔ کہدیجئے: میرا رب یقینا حق نازل فرماتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔

قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ مَا یُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَ مَا یُعِیۡدُ﴿۴۹﴾

۴۹۔ کہدیجئے: حق آگیا اور باطل نہ تو پہلی بار ایجاد کر سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ پلٹا سکتا ہے۔

49۔ حق آنے کے بعد باطل بے اثر ہو گیا کہ نہ کرنے کا رہا نہ دھرنے کا۔ کرنا دھرنا زندگی کی علامت ہے۔ باطل جو عدم سے عبارت ہے، بے اثر ہے۔

قُلۡ اِنۡ ضَلَلۡتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلٰی نَفۡسِیۡ ۚ وَ اِنِ اہۡتَدَیۡتُ فَبِمَا یُوۡحِیۡۤ اِلَیَّ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ قَرِیۡبٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ کہدیجئے: اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو اس گمراہی کا نقصان خود مجھے ہی ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں تو یہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر ہوتی ہے، اللہ یقینا بڑا سننے والا قریب ہے۔