آیات 94 - 95
 

قُلۡ اِنۡ کَانَتۡ لَکُمُ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ کہدیجئے: اگر اللہ کے نزدیک دار آخرت دوسروں کی بجائے خالصتاً تمہارے ہی لیے ہے اور تم ( اس بات میں ) سچے بھی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرو۔

وَ لَنۡ یَّتَمَنَّوۡہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور وہ موت کے متمنی ہرگز نہ ہوں گے، ان گناہوں کی وجہ سے جو وہ اپنے ہاتھوں کر چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

تشریح کلمات

خَالِصَۃً:

(خ ل ص) خلوص۔ ماسوی اللہ سے منقطع ہو کر صرف اللہ کا ہونا۔ یعنی ہر قسم کے شائبے سے پاک۔

تفسیرآیات

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اخروی زندگی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے، جب کہ دوسرے لوگ اس سے محروم ہوں گے اور اگر کسی یہودی کو عذاب ہو گا بھی تو صرف چند دنوں کے لیے۔ مثلاً جتنے دن گوسالہ پرستی میں گزرے ہیں، وہ عذاب کے دن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے اس عقیدے کے مطابق الزامی تنبیہ فرمائی کہ اگر آخرت کی زندگی اور آسودگی صرف تمہارے لیے ہی چشم براہ ہے تو اس کے حصول کی کوشش ایک طبعی اور فطری امر ہے۔ بنابریں اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ذرا موت کی تمنا کر کے تو دکھاؤ۔

سورۂ جمعہ آیت ۶ میں بھی ارشاد ہے :

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ ہَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ اَوۡلِیَآءُ لِلّٰہِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ

کہدیجیے: اے یہودیت اختیار کرنے والو! اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو دوسرے لوگ نہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

اس آیت سے اولیاء اللہ کا معیار بھی اجاگر ہو جاتا ہے کہ اللہ کا ولی موت کا مشتاق اور درگاہ الٰہی میں جانے کے لیے بے چین ہوتا ہے۔ ولی خدا حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

وَ اللّٰہِ لَاِبْنُ اَبِی طَالِبِ اٰنَسُ بِالْمَوتِ مِنَ الطِفْلِ بِثَدْیِ اُمِّہِ ۔ {نہج البلاغۃ خ ۵ ص ۱۰۸}

قسم بخدا! ماں کے سینے سے بچے کے انس سے زیادہ ابو طالب کا بیٹا موت سے مانوس ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

فَوَ اللّٰہِ مَا اُبَالِیْ دَخَلْتُ اِلَی الْمَوْتِ اَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ اِلَیَّ ۔ {نہج البلاغۃ خ ۵۵ ص ۱۹۷}

قسم بخدا! مجھے پرواہ نہیں کہ موت مجھ پر آ گرتی ہے یا میں موت پر جا گرتا ہوں۔

اہم نکات

۱۔ خود پرستی انسان کو قبول حق سے باز رکھتی ہے۔

۲۔ اگر ایک نبی کے زندہ ہوتے ہوئے لوگ خدا کو چھوڑ کر گوسالہ پرست ہو سکتے ہیں تو دوسرے نبی (ص) رحلت کے بعد لوگ اس کے منصوص وصی کو چھوڑ دیں تو کوئی تعجب کی بات نہیںـ۔

۳۔ یہودی سابقہ گناہوں کے باعث گوسالہ پرستی کی ذلت میں مبتلا ہوئے: وَ اُشۡرِبُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡعِجۡلَ بِکُفۡرِہِمۡ ۔

۴۔ مومن ہمیشہ لقاء اللہ کا مشتاق رہتا ہے: فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ ۔۔۔۔

۵۔ بدکار انسان لقائے رب سے ہراساں رہتا ہے۔

تحقیق مزید: آیت ۹۴ : تفسیر القمی ۱ : ۵۴


آیات 94 - 95