آیات 117 - 118
 

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوۡمِیۡ کَذَّبُوۡنِ﴿۱۱۷﴾ۚۖ

۱۱۷۔ نوح نے کہا: اے میرے رب! بتحقیق میری قوم نے میری تکذیب کی ہے۔

فَافۡتَحۡ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَہُمۡ فَتۡحًا وَّ نَجِّنِیۡ وَ مَنۡ مَّعِیَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ پس تو ہی میرے اور ان کے درمیان حتمی فیصلہ فرما اور مجھے اور جو میرے ساتھ مؤمنین ہیں ان کو نجات دے۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ قوم نے نوح علیہ السلام کی تکذیب کی ہے لیکن از راہ شکوہ اس کا ذکر فرما رہے ہیں۔

۲۔ فَافۡتَحۡ: فیصلہ کن حکم کے ذریعے حقیقت کا چہرہ کھول دے۔

۳۔ وَ مَنۡ مَّعِیَ: مجھے اور جو میری معیت میں ہیں انہیں نجات دے۔ قرآن انبیاء علیہ السلام کے ساتھیوں کو ’’معیت‘‘ کے ساتھ تعبیر فرماتا ہے جو ہر قدم پر ساتھ دینے کے معنوں میں ہے۔ جیسا کہ اللہ ہر قدم پر ساتھ ہوتا ہے توکہتے ہیں:

اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ (۲۶ شعراء:۲ ۶)

میرا پروردگار یقینا میرے ساتھ ہے، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔

اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۴۰)

یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ۔۔۔۔ (۴۸ فتح: ۲۹)

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں۔

ان لوگوں کا ذکر ہے جو ہر قدم پر ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ فتح آیت ۲۹۔

اہم نکات

۱۔ نجات، ہر قدم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں رہنے والوں کے لیے ہے۔


آیات 117 - 118