آیت 89
 

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ جِئۡنَا بِکَ شَہِیۡدًا عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿٪۸۹﴾

۸۹۔ اور (انہیں اس دن سے آگاہ کیجیے) جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ: قیامت کے دن جب حساب اعمال کے لیے انسانوں کو پیش کیا جائے گا تو ان کے حق میں یا خلاف فیصلہ دینے سے پہلے ان کے اعمال پر ایسی گواہی اور حجت قائم ہو گی جو ناقابل تردید ہو گی اگرچہ اللہ سب سے بہتر جانتا ہے کہ کس نے کیا عمل کیا ہے۔ قیامت کے دن اللہ کے سامنے کسی کا کیا بس چلتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کے باوجود ضوابط و اصول کے مطابق گواہ پیش فرماتا ہے۔

۲۔ فیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ: ’’ہر امت‘‘ سے مراد ہر جماعت اور ہر صدی ہے۔

سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہوں پر گواہ ہیں۔ اس لیے اس آیت سے بھی ہم یہی سمجھیں گے کہ ہٰۤؤُلَآءِ ِ کا اشارہ گواہوں کی طرف ہے۔ اسی طرح آیت کے یہ معنی بنتے ہیں: ہم ہر امت میں سے ایک گواہ خود انہی میں سے اٹھائیں گے اور آپ کو ان گواہوں پر گواہ بنا کر لے آئیں گے۔

۳۔ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ: یہ گواہ خود ان کے جانے پہچانے لوگ ہوں گے۔ لوگوں کے لیے ناشناس نہیں ہوں گے۔

اس سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ رسول ؐ گواہوں پر گواہ ہیں اور ہر امت و جماعت پر رسول کے علاوہ گواہ ہیں۔ چنانچہ سورۃ الزمر کی آیت ۶۹ میں فرمایا:

وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ ۔۔۔۔

اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا۔۔۔۔

اس سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبروں کے علاوہ بھی گواہ ہوتے ہیں۔

لہٰذا لِّکُلِّ شَیۡءٍ (ہر امت) سے مراد ہر عصر کی جماعت ہی ہو سکتی ہے اور ہر جماعت کے لیے ایک ایک گواہ لایا جائے گا جو اپنے ہم عصر لوگوں کے اعمال کے شاہد ہو گا۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی عصر گواہ و حجت سے خالی نہیں ہے۔ ہماری احادیث وارد ہے:

لَوْ بَقِیَتِ الْاَرْضُ بِغَیْرِ اِمَامٍ لَسَاخَتْ ۔ ( الکافی ۱: ۱۷۹)

اگر زمین امام کے بغیر ہو جائے تو یہ دھنس جائے۔

اس شاہد میں دو باتوں کا ہونا ضروری ہے: ایک یہ کہ وہ جائز الخطا نہ ہو۔ ورنہ بقول رازی:

اس کے لیے بھی گواہ کی ضرورت ہو گی اور یہ سلسلہ کہیں بھی نہ رکے گا۔ لہٰذا ہر زمانے میں ایسے افراد کو گواہ ہونا چاہیے کہ جن کی گفتار حجت ہو۔ ( تفسیر کبیر رازی ۲۰: ۹۸)

دوسری یہ کہ اس شاہد کی اعمال عباد پر نظر ہو۔ ورنہ جو اعمال عباد کا ناظر نہ ہو گا وہ شاہد بھی نہ ہو گا۔

فخر الدین رازی نے اجماع امت کو شاہد قرار دے کر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ ہر زمانے میں وہ شاہد کون ہو سکتا ہے جو جائز الخطا نہ ہو لیکن یہ جواب اس لیے ناقص رہ جاتا ہے کہ اجماع امت، اعمال امت پر ناظر کیسے ہو سکتا ہے اور خود امت ہی امت پر گواہ ہو جائے تو آیت کی ترکیب کچھ اس طرح بنتی ہے: ویوم نبعث فی کل امۃ اجماعھا ۔ یہ ترکیب کسی طرح بھی درست نہیں بنتی کیونکہ اجماع قابل بعث نہیں ہے۔ لہٰذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر امت میں ایسی ہستیاں موجود رہتی ہیں جو معصوم عن الخطا ہیں اور اعمال عباد پر ناظر بھی ہیں۔ وہ امت کے اعمال پر گواہ ہوں گی اور رسول ان کے اس مقام شہادت پر شاہد ہوں گے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسولوں کو اپنی امت کے تمام اعمال کا کیسے پتہ چلتا ہے کہ ان کی گواہی دیں ؟

جواب یہ ہے کہ الکافی ۱: ۲۱۹ میں ایک باب عرض الاعمال علی النبی والائمۃ علیہم السلام میں چند احادیث مذکور ہیں کہ اعمال عباد رسول ؐو ائمہ علیہم السلام کی خدمت پیش ہوتے ہیں۔ چنانچہ آیۃ:

وَ قُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۱۰۵)

اور کہدیجیے: لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے۔۔۔۔

کی تشریح میں وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ سے مراد ائمہ علیہم السلام ہیں۔

۲۔ وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ: قرآن میں ہر چیز کا واضح بیان ہے۔ خطاب رسول ؐ سے ہے۔ قرآن میں رسول ؐکے لیے ہر چیز کا بیان ہے۔ اگر غیر رسول کے لیے قرآن میں ہر چیز کا بیان نہیں ملتا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ باقی مسلمانوں کے لیے قرآن ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اور رسول ؐکے لیے ہر چیز کا واضح بیان ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَا مِنْ اَمْرٍ یَخْتَلِفُ فِیہِ اثْنَانِ اِلَّا وَ لَہٗ اَصْلٌ فِی کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَلَکِنْ لَا تَبْلُغُہٗ عُقُولُ الرِّجَالِ ۔ ( الکافی ۱: ۶۰ باب الرد الی الکتاب و السنۃ ۔۔۔۔)

کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں کسی دو کا اختلاف ہو مگر یہ کہ اس کے بارے میں کتاب اللہ میں ایک کلیہ بیان ہوا ہے لیکن اس تک لوگوں کی عقلوں کی رسائی نہیں ہوتی۔

لہٰذا نہ وہ تفسیر درست معلوم ہوتی ہے کہ اس بیان کو صرف ہدایت و بیان احکام کے ساتھ محدود کیا جائے کیونکہ یہ ظاہر آیت کے خلاف ہے اور نہ وہ تفسیر مناسب معلوم ہوتی ہے کہ جس کے تحت ہر شخص کے لیے قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ قرآن میں رسول ؐکے لیے ہر چیز کا بیان ہے اور امت کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

اس سے ان روایات کا مطلب بھی قابل فہم ہو جاتا ہے جو کہتی ہیں: قرآن میں علوم اولین و آخرین موجود ہیں۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن ہر قوم و ملت کا ایک گواہ ہو گا۔

۲۔ ہر قوم کے لیے ایک گواہ کا ہونا دلیل ہے کہ ہر قوم کے لیے ایک حجت ہے۔

۳۔ رسول کریمؐ گواہوں کے گواہ ہیں۔

۴۔ قرآن میں رسول کریمؐ اور حاملان قرآن کے لیے ہر چیز کا بیان ہے۔


آیت 89