آیت 90
 

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ یقینا اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ: انسانی زندگی کی سعادتمندی کا انحصار ایک اچھے معاشرے پر ہے۔ ایک فاسد معاشرے میں کسی فرد کے لیے کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور معاشرے کی درستی عدالت پر منحصر ہے۔ عدالت ہی کے زیر سایہ انسان امن و سکون کی زندگی گزار سکتا ہے، صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور فکری نشوونما اور باہمی محبت و آشتی کو فروغ ملتا ہے۔

عدالت کی تعریف مساوات سے کی جاتی ہے لیکن مساوات کا مطلب مشابہ نہیں ہے کہ ہر ایک کو ایک جیسا حق ملے بلکہ مساوات کا مطلب ہے: اعطاء کل ذی حق حقہ ۔ ہر صاحب حق کو اس کا حق دیا جائے۔

مثلاً ہر طالب علم کو اس کی لیاقت کے مطابق نمبر دیے جائیں۔ لائق اور نالائق دونوں کو ایک جیسے نمبر دینا عدالت نہیں ، ظلم ہے۔ مساوات یہ نہیں کہ بوڑھے اور بچے دونوں کو ایک جیسا حق دیا جائے بلکہ مساوات اور عدالت یہ ہے کہ بوڑھے اور بچے میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا حق دیا جائے۔کچھ لوگ عدالت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں: عدالت یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق میں توازن قائم کیا جائے۔

یہ تعریف عدالت کے نتیجے کی ہے خود عدالت کی نہیں کیونکہ ہر صاحب حق کو اس کا حق دینے سے معاشرے میں توازن قائم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا عدالت کے قیام کے نتیجے میں معاشرے میں توازن آ جاتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام عدل کی تعریف میں فرماتے ہیں:

وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌ ۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ، کلمات قصار :۴۳۷)

اور عدل سب کی نگہداشت کرنے والا ہے۔

جس کے تحت ہر طبقہ اور ہر مذہب کے لوگوں کو تمام انسانی حقوق میسر آتے ہیں۔

سورۃ النساء آیت ۵۸ اور سورۃ المائدہ آیت ۸ میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ عدالت اور ادئے امانت کو اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یہ مسلم و غیر مسلم سب کا حق ہے چنانچہ فرمایا:

قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۸)

اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں ) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے۔۔۔۔

مزید کے لیے سورہ مائدہ آیت ۵۸ ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ وَ الۡاِحۡسَانِ: احسان۔ انسان کی تین حالتیں ہو سکتی ہے:

اول: وہ دوسروں کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ پیش آ رہا ہو گا۔

دوم: وہ دوسروں پر ظلم و زیادتی کر رہا ہو گا۔

سوم: وہ دوسروں پر احسان کر رہا ہو گا۔

اس آیت میں جہاں عدل و انصاف کا حکم ہے وہاں احسان کا بھی حکم ہے۔ عدل یہ ہے کہ کسی نے آپ پر ظلم کیا ہے تو اس کا بدلہ لیں۔ احسان یہ ہے بدلہ لینے سے باز آجائیں اور توبہ و معذرت کی صورت میں اسے معاف کریں۔ عدل یہ ہے کہ اگر کسی نے آپ سے قرض لیا ہے تو اپنا قرض وصول کریں۔ احسان یہ ہے کہ مقروض کے نادار ہونے کی صورت میں اسے معاف کر دیں۔ عدل سے معاشرہ ظلم و زیادتی سے پاک ہو جاتا ہے تواحسان سے معاشرے میں انسانی قدریں زندہ ہوتی ہیں۔ عدل سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے تو احسان سے معاشرے میں حلاوت اور شیرینی پیدا ہوتی ہے۔ ظلم کے مارے لوگوں کے لیے جہاں عدل کی ضرورت ہے وہاں حالات و گردش ایام کے مارے لوگوں کو احسان کی ضرورت ہے۔

۳۔ ذِی الۡقُرۡبٰی: اس سے عموماً قریبی ترین رشتہ دار مراد لیے جاتے ہیں۔ خاندان کے معاشرے کا اساسی عنصر ترکیبی ہونے کی وجہ سے اسلام صلہ رحمی کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور ذِی الۡقُرۡبٰی سے مراد یہ ہے کہ خاص کر اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے نادار اور محتاجوں پر احسان کریں۔

روایات اہل بیت علیہم السلام میں آیا ہے کہ ذِی الۡقُرۡبٰی سے مراد ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں اور ادائے حق سے مراد خمس ہے جو رسول اللہ ؐ کے قرابتداروں کا حق ہے۔

۴۔ عدل و احسان اور ذِی الۡقُرۡبٰی کے ذکر کے مقابلے میں تین ایسی برائیوں کا ذکر فرمایا جن سے اسلامی معاشرے پاک رہنا چاہیے:

الۡفَحۡشَآءِ: اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہے۔

وَ الۡمُنۡکَرِ: ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں۔

وَ الۡبَغۡیِ: کسی چیز کی طلب میں میاں روی کی حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں۔

اسلام ایسے معاشرے کے قیام کا خواہاں ہے جس میں بے حیائی کے ارتکاب کو بے حیائی تصور کیا جائے۔ عقول سلیمہ کے تقاضے معاشرے پر حاکم ہوں اور خواہشات اپنی حدود میں رہ کر پورا کی جائیں۔ کسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔

اس طرح اس آیت میں اسلامی دستور حیات، نہایت جامع اور مختصر ترین لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عدل و احسان اور صلہ رحمی معاشرے کے مثبت اور بے حیائی، برائی اور زیادتی منفی احکام ہیں۔ مثبت کے فروغ اور منفی کی روک تھام سے معاشروں میں انسانی قدروں کی روشنی پھیلتی ہے۔


آیت 90