آیات 33 - 34
 

قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ ۚ وَ اِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّیۡ کَیۡدَہُنَّ اَصۡبُ اِلَیۡہِنَّ وَ اَکُنۡ مِّنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ یوسف نے کہا: اے میرے رب! قید مجھے اس چیز سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کی مکاریاں مجھ سے دور نہ فرمائے گا تو میں ان عورتوں کی طرف راغب ہو جاؤں گا اور نادانوں میں شامل ہو جاؤں گا۔

فَاسۡتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنۡہُ کَیۡدَہُنَّ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۳۴﴾

۳۴۔ پس یوسف کے رب نے یوسف کی دعا سن لی اور یوسف سے ان عورتوں کی مکاری دور کر دی، بیشک وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ: پہلے صرف عزیز مصر کی بیگم حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلانے کی کوشش میں تھی۔ اب اس جرم میں بڑے گھرانوں کی دیگر خواتین بھی شریک ہیں۔ شہر بھر کے امیر گھرانوں کی خواتین بھی ان کے پیچھے پڑ جاتی ہیں : یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اور ہر طرف حسین و جمیل عورتیں انہیں پھانسنے کے لیے اپنا اپنا جال لیے کھڑی ہیں۔

۲۔ وَ اِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّیۡ: اس اثنا میں یوسف علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے آپ کو حاضر پاتے ہیں۔ نگاہ یوسف علیہ السلام ان عورتوں پر فریفتہ ہونے کی جگہ عرفان رب کی رعنائیوں پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور ان کا دل ان عورتوں کی طرف جانے کی جگہ عشق الٰہی میں مست ہے۔ اسی لیے ان تمام عورتوں کی مکاریوں کا مقابلہ کرکے اسے اپنا ذاتی کمال تصور کرنے کی بجائے اسے الٰہی تائید سمجھتے ہیں۔ یہ دل کی طہارت ہے جس کی وجہ سے یہاں سوائے حب خدا کے کسی گناہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

۳۔ فَاسۡتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ: حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا قبول ہوتی ہے اور اللہ ان کو گناہ سے بچا لیتا ہے لیکن زندان جانے سے نہیں بچایا چونکہ خود حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا: السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ ۔۔۔۔ چنانچہ اللہ نے یوسف علیہ السلام کو گناہ سے بچایا، آزمائش سے نہیں بچایا۔

اہم نکات

۱۔ اولیائے کرام گناہ پر زندان کو ترجیح دیتے ہیں اور زندان، جہاں دیدار رب ہوتا ہے، اہل معرفت کے لیے زیادہ پسندیدہ ہے: السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ ۔۔۔۔

۲۔ جنسی بے راہ روی جہالت کی علامت ہے: وَ اَکُنۡ مِّنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ۔۔۔۔


آیات 33 - 34