آیت 32
 

قَالَتۡ فَذٰلِکُنَّ الَّذِیۡ لُمۡتُنَّنِیۡ فِیۡہِ ؕ وَ لَقَدۡ رَاوَدۡتُّہٗ عَنۡ نَّفۡسِہٖ فَاسۡتَعۡصَمَ ؕ وَ لَئِنۡ لَّمۡ یَفۡعَلۡ مَاۤ اٰمُرُہٗ لَیُسۡجَنَنَّ وَ لَیَکُوۡنًا مِّنَ الصّٰغِرِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اس نے کہا: یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں اور بیشک میں نے اسے اپنے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور اگر میرا حکم نہ مانے گا تو ضرور قید کر دیا جائے گا اور خوار بھی ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَتۡ فَذٰلِکُنَّ الَّذِیۡ: اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاشقہ کوئی راز کی بات نہ رہی۔ عزیز کی عورت شہر کے رؤسا کی بیگمات کے سامنے علانیہ طور پر اعتراف کرتی ہے کہ میں نے اسے پھسلانے کی کوشش کی مگر اس نے اپنا دامن بچایا۔

۲۔ وَ لَئِنۡ لَّمۡ یَفۡعَلۡ: اور ساتھ عزم کا بھی اظہار کرتی ہے کہ یہ کوشش جاری رہے گی۔ اگر یوسف علیہ السلام میری خواہش پوری نہیں کرتے تو انہیں خوار ہونا پڑے گا۔ مصری بیگمات کی یہ محفل حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کے لیے ایک شہادت ثابت ہوئی جس کو حضرت یوسف علیہ السلام نے زندان سے رہائی کے وقت پیش فرمایا۔

اس واقعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مصر کے اونچے خاندانوں کی بیگمات میں بے عفتی عیب کی بات نہ تھی اور اس کا برملا اظہار ہو سکتا تھا۔ جیسا کہ آج کی جدید جاہلیت میں رائج ہے۔

اہم نکات

۱۔ جو اللہ کی پناہ میں جاتا ہے وہ رسوا نہیں ہوتا۔

۲۔ اللہ یوسف علیہ السلام کی پا کدامنی کے لیے ثبوت مہیا فرماتا ہے۔

۳۔ قید ہونا خواری نہیں ، عصمت کا ثبوت تھا۔


آیت 32