آیات 104 - 108
 

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔ اور یقینا آپ کا رب ہی غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

کَذَّبَتۡ قَوۡمُ نُوۡحِۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۱۰۵﴾ۚۖ

۱۰۵۔ نوح کی قوم نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔

اِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ نُوۡحٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۱۰۶﴾ۚ

۱۰۶۔ جب ان کی برادری کے نوح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ہو؟

اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ﴿۱۰۷﴾ۙ

۱۰۷۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں،

فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ﴿۱۰۸﴾ۚ

۱۰۸۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ کَذَّبَتۡ قَوۡمُ نُوۡحِۣ الۡمُرۡسَلِیۡنَ: لفظ قوم مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ لفظ ہے جس کا مفرد نہیں ہوتا۔ جیسے رھط وغیرہ۔ ( روح المعانی)

۲۔ قوم نوح نے اگر حضرت نوح علیہ السلام کو شخصی اور ذاتی نبیاد پر جھٹلایا ہوتا تو یہ ایک رسول کی تکذیب تھی لیکن وہ نوع رسالت کی تکذیب کرتے تھے جس سے تمام رسولوں کی تکذیب ہوتی ہے۔

۳۔ اَخُوۡہُمۡ نُوۡحٌ : اپنی قوم کا ایک فرد ہونے کے اعتبار سے اَخُوۡہُمۡ کہا ہے۔ جیسے اخ العرب اور اردو محاورے میں برادری کہتے ہیں۔

۴۔ اَلَا تَتَّقُوۡنَ: تمہیں اپنی فکر نہیں ہے جو غیر اللہ کی پوجا اور اللہ کی عبادت ترک کر کے ابدی خطرہ مول لیتے ہو۔ عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ تم اپنا بچاؤ کرو۔

۵۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم تو اپنے دین پر قائم رہ کر اپنا بچاؤ کر رہے ہیں۔ یہ کہاں سے ثابت ہے تمہاری اطاعت میں بچاؤ ہے؟ جواب میں فرمایا: میں رسول ہوں۔ میری رسالت پر معجزہ اور دلیل قائم ہے اور میں امین ہوں اس بات کو تم خود جانتے ہو۔ تمہارے ہی درمیان ایک عمر گزاری ہے۔ میرے مزاج میرا، طبیعت، کردار تمہارے سامنے ہے۔ ایک امین شخص روزمرہ کی معمولی باتوں میں امانت کو ہاتھ سے نہیں دیتا، رسالت، توحید اور آخرت کے بارے میں امانت کو ہاتھ سے دے سکتا ہوں؟

۶۔ عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ میری باتوں کو مان لو اور غیر اللہ کی پرستش ترک کرو۔


آیات 104 - 108