آیت 87
 

وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿ۙ۸۷﴾

۸۷۔ اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔

تفسیر آیات

وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیامت کی ہولناکی کا صحیح ادراک ہے۔ ابوالانبیاء ہونے کے باوجود اللہ کے حضور کس انداز سے عاجزی کرتے ہیں کہ قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے مجھے رسوا نہ کر۔

فرزند خلیل حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں:

وَ لَا تُخْزِنِی یَوْمَ تَبْعَثُنِی لِلِقَائِکَ وَلاَ تَفْضَحْنِی بَیْنَ یَدَیْ اَوْلِیَائِکَ ۔۔۔۔ ( صحیفہ سجادیہ ۔ ۴۷ دعائے یوم عرفۃ )

تو جس دن مجھے اپنی ملاقات کے لیے اٹھائے گا تو مجھے رسوا نہ کر اور اپنے دوستوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کر۔

اس دعا میں بین یدی اولیائک کے جملے سے اس دعا کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ رسوائی سے مراد ’’ اولیاء اللہ کے درمیان‘‘ ہو سکتا ہے۔ اولیا اللہ کی صف میں درجات میں کمی نہ آئے۔ ان کے درمیان کمتر درجہ حاصل ہونا رسوائی تصور فرماتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ قیامت سے معصوموں کو بھی خوف آتا ہے۔ بے خوف ہے تو غافل گنہگار۔


آیت 87