اولیاء اللہ کے استغفار کا سبب


وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۸۲﴾

۸۲۔ اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔

82۔ معصومین علیہ السلام کا استغفار کرنا نافرمانی کی وجہ سے نہیں، بلکہ وہ اپنی اطاعت اور عبادت کو اللہ کی عظمتوں اور نعمتوں کے مقابلے میں ہیچ سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ کتنی عبادت بجا لائیں، پھر بھی کوتاہی سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر استغفار کرتے ہیں کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ سے روایت ہے کہ ما عبدناک حق عبادتک (بحار الانوار 68:23) ہم نے تیری اس طرح بندگی نہیں کی کہ بندگی کا حق ادا ہو جائے۔

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۳﴾

۸۳۔ میرے رب! مجھے حکمت عطا کر اور صالحین میں شامل فرما۔

وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾

۸۴۔ اور آنے والوں میں مجھے حقیقی ذکر جمیل عطا فرما۔

84۔ یہ اپنی دعوت کے تسلسل کے لیے دعا ہے۔ جس لسان صدق کی ابتدا انہوں نے خود کی تھی اس کا سلسلہ ان کی نسلوں میں بھی جاری و ساری رہا۔

دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا: آنے والوں میں میرے لیے سچی زبان عطا کر۔ سچی زبان توحید کی دعوت کی زبان ہے۔ علامہ بدخشی نے مفتاح النجاۃ میں امرتسری نے ارجح المطالب صفحہ 71 میں، کشفی نے مناقب مرتضوی صفحہ 55 میں روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ہے۔

وَ اجۡعَلۡنِیۡ مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ ﴿ۙ۸۵﴾

۸۵۔ اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں قرار دے۔

وَ اغۡفِرۡ لِاَبِیۡۤ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾

۸۶۔ اور میرے باپ (چچا) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے۔

وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿ۙ۸۷﴾

۸۷۔ اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔

87۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیامت کی ہولناکی کا صحیح ادراک ہے۔ ابو الانبیاء ہونے کے باوجود اللہ کے حضور کس انداز سے عاجزی کرتے ہیں۔ فرزند خلیل حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا میں ہے: وَ لَا تُخْزِنِی یَوْمَ تَبْعَثُنِی لِلِقَائِکَ وَ لَا تَفْضَحْنِی بَیْنَ یَدَیْ اَوْلِیَائَکَ ۔ (صحیفہ سجادیہ) تو جس دن مجھے اپنی ملاقات کے لیے اٹھائے گا تو مجھے رسوا نہ کر اور اپنے دوستوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کر۔ ہم نے پہلے کئی بار بتایا انبیاء و ائمہ علیہم السلام کا استغفار، آداب بندگی کا حصہ ہے۔ عصمت کے باوجود اعتراف کرتے ہیں کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔