بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَ اَحۡصُوا الۡعِدَّۃَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمۡ ۚ لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ لَا تَدۡرِیۡ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا﴿۱﴾

۱۔ اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دے دیا کرو اور عدت کا شمار رکھو اور اپنے رب اللہ سے ڈرو، تم انہیں (عدت کے دنوں میں) ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ عورتیں خود نکل جائیں مگر یہ کہ وہ کسی نمایاں برائی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تو اس نے اپنے ہی نفس پر ظلم کیا، تجھے کیا معلوم اس کے بعد شاید اللہ کوئی صورت پیدا کر دے۔

1۔ یعنی ایسے زمانے میں طلاق دی جائے جس سے عدت شروع ہو سکے۔ سورہ بقرہ میں بتایا گیا ہے کہ حیض والی مدخولہ عورت کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض کا آنا ہے۔ لہٰذا عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے اور اس طہر میں بھی طلاق نہ دی جائے، جس میں شوہر نے اس سے ہمبستری کی ہو۔ اگلی آیت میں بتایا کہ عادل افراد کو گواہ بنا ؤ۔ اس طرح فقہ جعفریہ کا مؤقف ان آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ مذکورہ بالا شرائط صحت طلاق کے لیے ضروری ہیں۔ عدت کے دنوں میں عورت کو نان و نفقہ اور رہائش فراہم کی جائے اور گھر سے نہ نکالا جائے۔ ان آیات میں طلاق کے بارے میں درج ذیل احکام کا ذکر ہے : iطلاق زمانہ طہر میں واقع ہو۔ ii جس طہر میں ہمبستری ہو چکی ہو، اس میں طلاق نہ دی جائے۔ iii عدت کا حساب رکھنا چاہیے کہ حقوق ضائع نہ ہوں۔ iv عدت کے دنوں میں مطلقہ عورت کو گھر سے نہ نکالا جائے۔ v عدت پوری ہونے والی ہو تو شوہر یا تو رجوع کرے یا عدت پوری ہونے پر خوش اسلوبی سے فارغ کرے۔ vi دو عادل گواہوں کے سامنے طلاق دی جائے۔ vii گواہی محض اللہ کی خاطر ہو اور اس میں کمی بیشی نہ کی جائے۔ viii اس ضمن میں فرمایا کہ تقویٰ اختیار کرنے کے دو نتائج سامنے آئیں گے: مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے راہ حل اور رزق میں فراوانی۔ لہٰذا عورت کو طلاق دیتے ہوئے تقوی اختیار کرو، اسے بے بس نہ کرو۔ ix جن عورتوں کے یائسہ ہونے میں شک ہو ان کی عدت تین ماہ ہے۔ x حیض آنے کی عمر میں ہونے کے باوجود حیض نہ آتا ہو تو اس عورت کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ xi حاملہ عورتوں کی عدت، وضع حمل تک ہے۔ xii حاملہ عورت کو زمانہ حمل میں نفقہ دیا جائے۔ xiii عورت بچے کو دودھ پلائے تو اجرت دی جائے۔ واضح رہے کہ دودھ عورت کی ملکیت ہے۔ عام حالت میں بھی عورت اس کا معاوضہ لے سکتی ہے، کیونکہ اولاد کا نفقہ باپ پر واجب ہے۔

فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ : میں لِعِدَّتِہِنَّ کا لام وقت بتانے کے لیے ہے، جیسا کہ لام کسی زمانہ بتانے والے لفظ پر داخل ہو تو وقت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس آیت سے فقہ جعفریہ کے درج ذیل موقف ثابت ہوتے ہیں۔ iحیض کے دنوں میں طلاق موثر نہیں ہے۔ ii جس طہر میں ہمبستری ہوئی ہے اس میں طلاق موثر نہیں ہے۔ iii ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں ہوئی ہوں، ان میں سے صرف ایک طلاق مؤثر ہے، باقی دو طلاقیں مؤثر نہیں ہیں۔ کیونکہ ان تینوں صورتوں میں عدت شروع نہیں ہو سکتی۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں ہونے کی صورت میں عدت پہلی طلاق کے لیے ہے، دوسری اور تیسری کی عدت نہیں ہے، لہٰذا ایک ساتھ تین طلاقیں فقہ جعفریہ کے مطابق مؤثر نہیں۔ ابن قیم اور ابن تیمیہ بھی اس طلاق کو غیر مؤثر سمجھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اس طلاق کو حرام لیکن مؤثر سمجھتے ہیں۔

فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۬ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ پس جب عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کو آئیں تو انہیں اچھی طرح سے (اپنے عقد میں) رکھو یا انہیں اچھے طریقے سے علیحدہ کر دو اور اپنوں میں سے دو صاحبان عدل کو گواہ بناؤ اور اللہ کی خاطر درست گواہی دو، یہ وہ باتیں ہیں جن کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے،

2۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: یا اباذر لو ان الناس کلہم اخذوا بھذہ الایۃ لکفتہم ۔ (مستدرک الوسائل 11 :216 باب توکل۔ سنن ابن ماجہ باب الورع۔ الفاظ مستدرک کے ہیں) ابوذر! اگر سب لوگ اس آیت پر عمل کریں تو ان کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔

وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا﴿۳﴾

۳۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے، اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔

وَ الّٰٓیِٴۡ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الّٰٓیِٴۡ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا﴿۴﴾

۴۔ تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے ناامید ہو گئی ہیں، (ان کے بارے میں) اگر تمہیں شک ہو جائے (کہ خون کا بند ہونا سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ہے یا کسی اور عارضے کی وجہ سے) تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں حیض نہ آتا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔

ذٰلِکَ اَمۡرُ اللّٰہِ اَنۡزَلَہٗۤ اِلَیۡکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُعۡظِمۡ لَہٗۤ اَجۡرًا﴿۵﴾

۵۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیاں اس سے دور کر دے گا اور اس کے لیے اجر کو بڑھا دے گا۔

اَسۡکِنُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ سَکَنۡتُمۡ مِّنۡ وُّجۡدِکُمۡ وَ لَا تُضَآرُّوۡہُنَّ لِتُضَیِّقُوۡا عَلَیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ کُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوۡا عَلَیۡہِنَّ حَتّٰی یَضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَکُمۡ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ ۚ وَ اۡتَمِرُوۡا بَیۡنَکُمۡ بِمَعۡرُوۡفٍ ۚ وَ اِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَہٗۤ اُخۡرٰی ؕ﴿۶﴾

۶۔ ان عورتوں کو (زمانہ عدت میں) بقدر امکان وہاں سکونت دو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر وہ حاملہ ہوں تو وضع حمل تک انہیں خرچہ دیتے رہو پھر اگر تمہارے کہنے پر وہ دودھ پلائیں تو انہیں (اس کی) اجرت دے دیا کرو اور احسن طریقے سے باہم مشورہ کر لیا کرو اور (اجرت طے کرنے میں) اگر تمہیں آپس میں دشواری پیش آئے تو (ماں کی جگہ) کوئی اور عورت دودھ پلائے گی۔

مِّنۡ وُّجۡدِکُمۡ: الوجد، الوسع، الطاقۃ ، یعنی بقدر امکان۔ وَ اۡتَمِرُوۡا بَیۡنَکُمۡ باہم مشورہ کرو۔ یعنی طلاق اور اولاد ہونے کی صورت میں ماں سے دودھ پلانے اور ماں کو اجرت دینے کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریوں کے ازالے کے لیے باہمی مشورہ کر لیا کرو کہ کہیں والدین کی جدائی کی وجہ سے بچے پر جسمانی اور نفسیاتی منفی اثرات نہ پڑیں۔ وَ اِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ عسر و حرج اور غیر معمولی دشواری آنے کی صورت میں ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلائے۔ اس آیت میں ماں کے دودھ کی تاکید ہے۔ باہمی مشورہ سے ماں کے دودھ پلانے میں حائل مشکلات دور کرو۔ صرف عسر و حرج کی صورت میں دوسری عورت دودھ پلائے۔

لِیُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَۃٍ مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ مَنۡ قُدِرَ عَلَیۡہِ رِزۡقُہٗ فَلۡیُنۡفِقۡ مِمَّاۤ اٰتٰىہُ اللّٰہُ ؕ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىہَا ؕ سَیَجۡعَلُ اللّٰہُ بَعۡدَ عُسۡرٍ یُّسۡرًا ٪﴿۷﴾

۷۔ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر اس کے رزق میں تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جتنا اللہ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرے، اللہ کسی کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بناتا جتنا اسے دیا ہے، تنگدستی کے بعد عنقریب اللہ آسانی پیدا کر دے گا۔

لِیُنۡفِقۡ : اس آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر شخص کی ذمہ داری اس کی استطاعت کے مطابق ہے۔ غریبوں کے لیے اس آیت میں ایک تسلی بھی ہے کہ بَعۡدَ عُسۡرٍ یُّسۡرًا تنگدستی کے بعد اللہ آسانی پیدا کر دے گا۔

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ عَتَتۡ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہَا وَ رُسُلِہٖ فَحَاسَبۡنٰہَا حِسَابًا شَدِیۡدًا ۙ وَّ عَذَّبۡنٰہَا عَذَابًا نُّکۡرًا﴿۸﴾

۸۔ اور ایسی کتنی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان سے سخت حساب لیا اور انہیں برے عذاب میں ڈال دیا۔

فَذَاقَتۡ وَبَالَ اَمۡرِہَا وَ کَانَ عَاقِبَۃُ اَمۡرِہَا خُسۡرًا﴿۹﴾

۹۔ پھر انہوں نے اپنے اعمال کے وبال کا ذائقہ چکھ لیا اور ان کا انجام خسارے پر منتہی ہوا۔

اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ۙ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ ۬ۚۖۛ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ۟ۛ قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ ان کے لیے اللہ نے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، پس اے عقل مند ایماندارو! اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل کیا ہے۔

10۔ 11 رَسُوۡلًا سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔ اور ذِکۡرًا سے مراد بھی رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔ یہاں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ذکر دونوں القابات کے ساتھ یاد کیا گیا ہے، چونکہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ذکر و نصیحت ہی کے لیے مبعوث ہوئے اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرض منصبی نصیحت سے ہی عبارت ہے۔

رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ قَدۡ اَحۡسَنَ اللّٰہُ لَہٗ رِزۡقًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ ایک ایسا رسول جو تمہیں اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتا ہے تاکہ وہ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق دے رکھا ہے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ؕ یَتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَیۡنَہُنَّ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۬ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔

12۔ آسمان کی مانند زمین بھی پیدا کی ہے۔ ”مانند“ کہنا تعدد کی دلیل نہیں ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد عناصر تخلیق ہوں کہ آسمانوں کو جن عناصر سے بنایا ہے، زمین بھی انہی سے مرکب ہونے میں آسمان کی مانند ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب۔