بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ لَہُ الۡمُلۡکُ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱﴾

۱۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں بادشاہی اسی کی ہے اور ثنا بھی اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ فَمِنۡکُمۡ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمۡ مُّؤۡمِنٌ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲﴾

۲۔ وہی ہے جس نے تمہیں خلق کیا پھر تم میں سے بعض کافر اور بعض ایمان والے ہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس پر خوب نگاہ رکھتا ہے۔

2۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کفر و ایمان اللہ کی تخلیق ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ تخلیق کے بعد کفر و ایمان میں منقسم ہونا ایک نتیجہ کے طور پر سامنے آیا۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۳﴾

۳۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور اسی کی طرف پلٹنا ہے۔

3۔ تخلیق کائنات کے ساتھ انسان کی اچھی تصویر کشی کا خصوصیت سے ذکر ہے کیونکہ اس کائنات میں انسان اللہ کا عظیم معجزہ ہے۔ اس کو اللہ نے تخلیقاً عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ کھڑا قد دے کر اس کا سر اونچا کیا۔ پھر طاقت سے نہیں، اطاعت سے خالق کے سامنے جھکنے کاحکم دیا۔ اسے ظاہری اعضاء اور باطنی صلاحیتیں ایسی عطا فرمائیں کہ وہ جمال و کمال میں خلیفۃ اللہ فی الارض کے مرتبے کا اہل ہو گیا اور بہت سے موجودات اس کے لیے مسخر کر دیے گئے اور خود براہ راست اللہ کی عبودیت جیسے مقام کے لیے منتخب ہو گیا۔ اس انسان کے مقام و منزلت کی نشاندہی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ قدرت کو خود اس مخلوق پر ناز ہے کہ فرمایا: اس نے تمہاری شکل بنائی اور عمدہ بنائی۔ ملاحظہ ہو سورہ حجرات آیت 11۔

یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۴﴾

۴۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کو جانتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ان سب کو بھی اللہ جانتا ہے اور جو کچھ سینوں میں ہے اسے بھی اللہ خوب جانتا ہے۔

4۔ جب آسمانوں اور انسانوں کا خالق ہے تو اپنی مخلوق کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پوشیدہ کسی حجاب میں ہوتا ہے، خود حجاب بھی اللہ کی طرف سے شاہد ہو گا۔

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۫ فَذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۵﴾

۵۔ کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو پہلے کافر ہو گئے تھے پھر انہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا تھا؟ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿۶﴾

۶۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آتے تھے تو یہ کہتے تھے: کیا بشر ہماری ہدایت کرتے ہیں؟ لہٰذا انہوں نے کفر اختیار کیا اور منہ پھیر لیا، پھر اللہ بھی ان سے بے پرواہ ہو گیا اور اللہ بڑا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔

اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا : کیا بشر ہماری ہدایت کریں گے؟ جب وہ ہماری طرح بشر ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اس کے پاس کوئی وحی قسم کی چیز آئے، ہمارے پاس نہ آئے۔ قدیم سے لے کر آج تک لوگ ایک مافوق فطرت کی توقع رکھتے ہیں، خود انسان کو اللہ کی طرف سے سفارت کے عہدے پر فائز ہونے کا اہل نہیں سمجھتے۔

زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ﴿۷﴾

۷۔ کفار کو یہ گمان ہے کہ وہ ہر گز(دوبارہ) اٹھائے نہیں جائیں گے، کہدیجئے: ہاں! میرے رب کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر تمہیں (اس کے بارے میں) ضرور بتایا جائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو اور یہ بات اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔

فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۸﴾

۸۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے ایمان لے آؤ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔

8۔ نور سے مراد قرآن ہے جو خود روشن اور دوسروں کو روشنی دیتاہے۔

یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۹﴾

۹۔ جس روز اللہ اجتماع کے دن تمہیں اکٹھا کر دے گا تو وہ فائدے خسارے کا دن ہو گا اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے اللہ اس کے گناہوں کو اس سے دور کر دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ابد تک رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

التَّغَابُنِ : غبن کا مفاعلہ ہے۔ شر لے کر خیر چھوڑنے والا۔ مغبون ”خسارہ اٹھانے والا“ ہو گا اور خیر لے کر شر چھوڑنے والا غابن ”خسارہ ڈالنے والا“ ہو گا۔ اگلی آیت میں اس تغابن یعنی اس ہار جیت کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اس تفسیر کی تائید میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے: ہر شخص کے لیے جنت میں ایک درجہ ہے، اگر وہ ایمان لے آتا تو اس پر فائز ہو جاتا اور جہنم میں بھی ہر ایک کے لیے ایک جگہ ہے۔ اگر نافرمانی کرتا تو اس میں داخل ہو جاتا۔ چنانچہ جنت میں نافرمان کی جگہ مومن اور مومن کے لیے جہنم کی مختص جگہ نافرمان کو دی جائے گی۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کو غبن میں ڈالنے والے ہو گئے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿٪۱۰﴾ ۞ؓ

۱۰۔ جو لوگ کافر ہو گئے اور انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی وہی اہل جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔