یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۹﴾

۹۔ جس روز اللہ اجتماع کے دن تمہیں اکٹھا کر دے گا تو وہ فائدے خسارے کا دن ہو گا اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے اللہ اس کے گناہوں کو اس سے دور کر دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ابد تک رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

التَّغَابُنِ : غبن کا مفاعلہ ہے۔ شر لے کر خیر چھوڑنے والا۔ مغبون ”خسارہ اٹھانے والا“ ہو گا اور خیر لے کر شر چھوڑنے والا غابن ”خسارہ ڈالنے والا“ ہو گا۔ اگلی آیت میں اس تغابن یعنی اس ہار جیت کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اس تفسیر کی تائید میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے: ہر شخص کے لیے جنت میں ایک درجہ ہے، اگر وہ ایمان لے آتا تو اس پر فائز ہو جاتا اور جہنم میں بھی ہر ایک کے لیے ایک جگہ ہے۔ اگر نافرمانی کرتا تو اس میں داخل ہو جاتا۔ چنانچہ جنت میں نافرمان کی جگہ مومن اور مومن کے لیے جہنم کی مختص جگہ نافرمان کو دی جائے گی۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کو غبن میں ڈالنے والے ہو گئے۔