بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱﴾

۱۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟

کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔

2۔3 قول و فعل میں تضاد ایک قسم کا نفاق ہے اور نفاق ایک قسم کی نفسیاتی بیماری ہے۔ معاشرے میں ایسے مریضوں کا وجود اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش کرتے تھے کہ ہمیں بتایئے کہ اللہ کا محبوب ترین عمل کیا ہے؟ جبکہ یہی لوگ جہاد جیسے اللہ کے محبوب ترین عمل سے معرکہ احد میں فرار ہو چکے تھے۔

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾

۴۔ اللہ یقینا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

رصص چیزوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑنے کو کہتے ہیں۔ سیسہ کو اسی وجہ سے رصاص کہا ہے۔ یعنی اللہ ایسے لڑنے والوں کو پسند فرماتا ہے جو میدان جہاد میں ڈٹ کر لڑتے ہیں، فرار نہیں ہوتے اور پیٹھ نہیں دکھاتے۔ اس مضبوط دیوار کے لیے فرار یا پیٹھ دکھانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ وَ قَدۡ تَّعۡلَمُوۡنَ اَنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ ؕ فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم مجھے کیوں اذیت دیتے ہو؟ حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، پس جب وہ ٹیڑھے رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۶﴾

۶۔ اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔

6۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام اور حسّان کے اشعار کے بعد اس بات میں کسی بحث کی گنجائش نہیں رہتی کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک اسم احمد ہے۔ اناجیل کی پیشگوئی میں حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی زبان سریانی میں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام ذکر کیا ہے، جس کا بعد میں یونانی زبان میں ترجمہ فارقلیط سے کیا گیا ہے، جس کے معانی کا تعین نہیں ہو سکا۔ کبھی اس کا ترجمہ تسلی دہندہ سے کرتے ہیں، کبھی مددگار سے، کبھی شفاعت کنندہ سے، کبھی وکیل سے کرتے ہیں۔ جبکہ اہل تحقیق کے مطابق فارقلیط (pericl- -utos) محمود، احمد یا محمد یعنی قابل ستائش ہے۔ بعض اہل قلم نے سریانی لفظ تلاش کر لیا ہے، جو انہیں سیرت ابن ہشام میں محمد بن اسحاق کے حوالے سے مل گیا۔ یہ لفظ مُخْمَنّا ہے، جو محمد کے ہم معنی ہے۔ محمد بن اسحاق متوفی 768ھ کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی زبان بولتے تھے۔

مسیحی نو مسلم محمد صادق فخر الاسلام نے اپنی کتاب انیس الاسلام میں، میں کیوں مسلمان ہوا؟ کے عنوان کے ذیل میں لکھا ہے: میرے مسیحی استاد نے اس شرط پر کہ میں ان کا نام کسی کو نہ بتاؤں، دو کتابیں ایسی دکھائیں جو رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے پہلے کی لکھی ہوئی تھیں۔ ان دونوں کتابوں میں فارقلیط کا ترجمہ احمد اور محمد سے کیا ہوا تھا۔ (قاموس قرآن)

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُوَ یُدۡعٰۤی اِلَی الۡاِسۡلَامِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے جب کہ اسے اسلام کی دعوت دی جا رہی ہو؟ اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ (کی پھونکوں) سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار برا مانیں۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾

۹۔ وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو ناگوار گزرے۔

8۔9 چنانچہ ہمارے معاصر کافروں کے اپنے ملکوں میں اسلام روز بروز ایک طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ توبہ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اے ایمان والو! کیا میں ایسی تجارت کی طرف تمہاری رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے؟