آیت 8
 

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ (کی پھونکوں) سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار برا مانیں۔

تفسیر آیات

۱۔ یُرِیۡدُوۡنَ: اسلام دشمن عناصر اسلامی تعلیمات پر مشتمل اس روشن دستور حیات کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کریں گے۔ اس جملے میں اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اسلام کی روشنی کی پہلی کرن پھوٹتے ہی یہ سازشیں شروع ہو جاتی ہیں اور آج تک پوری طاقت کے ساتھ ہر سو، ہر طرف سے جاری ہیں۔ چنانچہ کوئی موضوع، کوئی صورت نہیں چھوڑی جس کے ذریعے اسلام کے خلاف سازش نہ کی گئی ہو۔ اپنی حربی و عسکری طاقت، مالی و اقتصادی قوت، اپنے حیلوں اور مکاریوں، جاسوسی، ففتھ کالم اور اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے، اپنے ننگ و عار سے پرُ کلچر، شرمناک، اخلاق سوز حرکات، اپنے تمام اخلاقی اور انسانی قدروں کی پامالی کے ذریعے۔

۲۔ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ: چنانچہ یہ نور اپنے بھرپور وجود کی وجہ سے اپنی چمک اور شعاعوں کی وسعت و قوت کی طرف رواں دواں ہے اور اپنی حقیر اور ناچیز پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرنے والوں کے منہ ہی باقی نہ رہے کہ وہ اس نور کو بجھانے کے لیے پھونک ماریں۔

نہایت قابل غور ہے کہ ہمارے معاصر کافروں نے اپنے منہ کو اسلام کے اس چراغ کو بجھانے کے لیے بہت بڑا بنایا تھا لیکن ان کافروں کے اپنے ملکوں میں اسلام ایک طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے معاصر کافر اسلام کے خلاف مادی طاقت استعمال کر رہے اور اسلام اپنی روحانی طاقت سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس لیے ان کافروں کے مادی تیر اسلام کے روحانی نشانے پر نہیں لگتے۔ اس لیے اسلام اس محاذ پر آگے بڑھ رہا ہے جس کے سامنے کوئی مخالف طاقت نہیں ہے یعنی روحانی محاذ اورکافر ایسے محاذ سے اسلام کے خلاف جنگ کر رہا ہے جس سے اسلام متاثر نہیں ہوتا۔

۳۔ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ: چنانچہ فتح اسلام، خصوصاً فتح مکہ کے موقع پر کافروں پر گراں گزرنا تو تاریخی بات ہے۔ اسلام کا ہر شعار مثلاً مسلم خواتین کا حجاب دیکھ کرہمارے معاصر کافروں کو دلوں پر خنجر چلتا ہے: قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمۡ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۱۹)

اہم نکات

۱۔ کفار کی پھونکوں سے چراغ اسلام کی روشنی بجائے بجھنے کے مزید پھیل رہی ہے۔


آیت 8