بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

قَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا وَ تَشۡتَکِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ٭ۖ وَ اللّٰہُ یَسۡمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ﴿۱﴾

۱۔ بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی اور اللہ آپ دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، اللہ یقینا بڑا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

1۔ انصار کے ایک شخص نے غصے میں آکر اپنی عورت سے کہا : انت علی کظھر امی ”تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے۔“ عرب جاہلیت میں اس سے طلاق اور عورت ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی تھی۔ یہ خاتون رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس مسئلے کے حل کے لیے اصرار کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔

اَلَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِہِمۡ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمۡ ؕ اِنۡ اُمَّہٰتُہُمۡ اِلَّا الّٰٓیِٴۡ وَلَدۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَیَقُوۡلُوۡنَ مُنۡکَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَ زُوۡرًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ﴿۲﴾

۲۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (انہیں ماں کہ بیٹھتے ہیں) وہ ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو صرف وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے اور بلاشبہ یہ لوگ ناپسندیدہ باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اور اللہ یقینا بڑا درگزر کرنے والا مغفرت کرنے والا ہے۔

2۔ وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے، وہ اس کی ماں نہیں ہے۔ صرف منہ سے تشبیہ دینے سے کوئی کسی کی ماں نہیں بنتی۔ البتہ ایسا کہنے کو فقہی اصطلاح میں ظھار کہا جاتا ہے۔ فقہ جعفریہ کے مطابق ظھار حرام ہے۔ ظھار کے بعد ظھار کرنے والے پر اس کی بیوی حرام ہو جاتی ہے، البتہ کفارہ دینے پر دوبارہ حلال ہو جاتی ہے۔ ظھار کے باعث عورت کے حرام ہونے کی کچھ شرائط ہیں جو فقہی کتابوں میں مذکور ہیں۔ اگلی آیات میں کفارے کا ذکر ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ؕ ذٰلِکُمۡ تُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۳﴾

۳۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنے قول سے پلٹ جائیں انہیں باہمی مقاربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اس طرح تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ کے معنی کچھ لوگوں نے تلافی سے کیے ہیں۔ یعنی ظہار کر کے اس کی تلافی کرنا چاہیں۔ بعض دوسرے حضرات نے یَعُوۡدُوۡنَ سے مراد اعادہ ظہار لیا ہے۔ یعنی جو لوگ مکرر ظہار کریں، وہ کفارہ دیں۔ مذہب اہل بیت علیہم السلام یہ ہے کہ یَعُوۡدُوۡنَ سے مراد ہے ہمبستری کی طرف عود کرنا چاہیں تو کفارہ دیں۔ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ۔ ”باہمی مقاربت سے پہلے“ کے الفاظ قرینہ ہیں کہ یَعُوۡدُوۡنَ سے مراد یعودون الی الوطیٔ ہے۔

فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ فَاِطۡعَامُ سِتِّیۡنَ مِسۡکِیۡنًا ؕ ذٰلِکَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۴﴾

۴۔ پس جسے غلام نہ ملے وہ باہمی مقاربت سے پہلے متواتر دو مہینے روزے رکھے اور جو ایسا بھی نہ کر سکے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یہ اس لیے ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور کفار کے لیے دردناک عذاب ہے۔

4۔ اگر غلام آزاد کرنا ممکن نہ ہو تو دو ماہ بلا فاصلہ روزے رکھیں گے۔ اگر ایک ماہ مکمل نہیں کیا، درمیان میں ایک دو دن روزے نہ رکھے تو پھر سرے سے روزے رکھنا ہوں گے۔ البتہ اگر ایک ماہ مکمل کر کے دوسرے مہینے کے چند دن روزے رکھ لیے تو سرے سے دوبارہ رکھنا ضروری نہیں ہیں۔ اگر روزے رکھنا بھی ممکن نہ ہوئے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے۔

ذٰلِکَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ : اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان رکھنے کے لیے حدود اللہ کی پابندی احکام پر عمل کرنا ہو گا۔ اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ عمل ہی ایمان ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ کُبِتُوۡا کَمَا کُبِتَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ وَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ۚ﴿۵﴾

۵۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ یقینا اس طرح ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلوں کو ذلیل کیا گیا ہے اور بتحقیق ہم نے واضح نشانیاں نازل کی ہیں اور کفار کے لیے ذلت والا عذاب ہے۔

یَوۡمَ یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ اَحۡصٰہُ اللّٰہُ وَ نَسُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ٪﴿۶﴾

۶۔ اس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا پھر انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں، وہ اللہ کو بھول گئے ہیں مگر اللہ نے انہیں شمار کر رکھا ہے اور اللہ ہر شے پر گواہ ہے۔

6۔ انسان سے روزانہ کچھ نہ کچھ کوتاہی اور گناہ سرزد ہوتے ہیں، پھر وہ بھول جاتا ہے۔ اکثر کو تو گناہ کا احساس تک نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سب اللہ کے ہاں ثبت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ قیامت کے دن گناہوں کی ایک لمبی فہرست سامنے آئے گی۔ اعاذنا اللہ من ذلک ۔

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمۡ وَ لَا خَمۡسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمۡ وَ لَاۤ اَدۡنٰی مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمۡ اَیۡنَ مَا کَانُوۡا ۚ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۷﴾

۷۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کے بارے میں جانتا ہے، کبھی تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر یہ کہ ان کا چوتھا اللہ ہوتا ہے اور نہ پانچ آدمیوں کی مگر یہ کہ ان کا چھٹا اللہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ مگر وہ جہاں کہیں ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، پھر قیامت کے دن وہ انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا، اللہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

7۔ منافقین مسلمانوں کے خلاف خفیہ منصوبے بناتے اور ان میں پھوٹ ڈالنے کے لیے طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے تھے۔ ان کی خفیہ سرگوشیوں کو اس آیت کے ذریعہ فاش کیا گیا۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ ۫ وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ بِمَا لَمۡ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ۙ وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوۡلُ ؕ حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۸﴾

۸۔ کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی کرنے سے منع کیا گیا تھا؟ جس کام سے انہیں منع کیا گیا تھا وہ پھر اس کا اعادہ کر رہے ہیں اور آپس میں گناہ اور ظلم اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو وہ آپ کو اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طریقے سے اللہ نے آپ پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے آپ سے کہتے ہیں: اللہ ہماری باتوں پر ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا؟ ان کے لیے جہنم کافی ہے جس میں وہ جھلسائے جائیں گے، جو بدترین انجام ہے۔

8۔ یہود اور منافقین آپس میں سرگوشی کرتے تھے اور مومنین کو دیکھ کر آنکھوں سے اشارہ کرتے تھے۔ مومنین اس خیال سے فکر مند ہوتے تھے کہ جو لوگ کسی جنگی مہم پر گئے ہوئے ہیں، شاید ان کو کسی جانی نقصان یا شکست وغیرہ سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ اس بات کی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شکایت ہوئی، رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم، کی طرف سے منع کرنے کے باوجود وہ لوگ باز نہ آئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (مجمع البیان)

یہودی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر السام علیک یا ابا لقاسم کہا کرتے تھے۔ یعنی اے ابو القاسم تجھے موت آئے (نعوذ باللہ)۔ ان توہین آمیز الفاظ پر ان پر فوری عذاب نازل نہ ہوا۔ وہ اس بات کو دلیل قرار دیتے تھے کہ آنحضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ اللہ مجرموں کو جو مہلت دیتا ہے، اس سے وہ یہی خیال کرتے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَیۡتُمۡ فَلَا تَتَنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ وَ تَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں نہ کیا کرو بلکہ نیکی اور تقویٰ کی سرگوشیاں کیا کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم جمع کیے جاؤ گے۔

9۔ ایسے لوگوں سے خطاب ہے جن پر ”ایمان والے“ کا لفظ صادق آ سکتا ہے کہ وہ اثم و عدوان اور معصیت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے موضوع پر سرگوشی نہ کریں۔ تمہاری سرگوشی کا موضوع نیکی اور تقویٰ ہونا چاہیے۔ ہر قسم کی سرگوشی کے لیے حکم یہ ہے: اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجی اثنان دون صاحبہما فان ذلک یحزنہ (صحیح مسلم باب تحریم مناجاۃ الکافی 2: 660) اگر تین افراد ایک جگہ ہوں تو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کریں، اس سے اس کو دکھ ہو گا۔

اِنَّمَا النَّجۡوٰی مِنَ الشَّیۡطٰنِ لِیَحۡزُنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔(منافقانہ) سرگوشیاں تو بلاشبہ صرف شیطان ہی کی طرف سے ہوتی ہیں تاکہ مومنین کو رنجیدہ خاطر کرے حالانکہ وہ اذن خدا کے بغیر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور مومنین کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔

10۔ خفیہ سرگوشی ایک پوشیدہ خطرہ ہے اور یہ نظر آنے والی لشکر کشی سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ لشکر کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن خفیہ سرگوشیوں کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔