بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱﴾

۱۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

سَبَّحَ لِلّٰہِ : یہاں ماضی کا لفظ استعمال ہوا ہے، جبکہ سورہ جمعہ و تغابن میں مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارے کے لیے ہو سکتا ہے کہ یہ تسبیح کسی خاص الفاظ کے ساتھ مختص نہیں ہے۔

لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۲﴾

۲۔ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے، وہی زندگی اور( وہی) موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۳﴾

۳۔ وہی اول اور وہی آخر ہے نیز وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

3۔ اللہ کا اول ہونا زمانہ کے لحاظ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ زمانے سے ماوراء ہے۔ حدیث میں آیا ہے: کان اللہ و لا شیٔ غیرہ ۔ (الکافی 1: 117) اللہ اس وقت بھی تھا، جب اس کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی چیز موجود نہ تھی، اس وقت بھی وہ قادر مطلق موجود تھا۔ وَ ہُوَ ظَّاہِرُ ۔ اس کائنات میں ہر چیز اس کی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ تاریکی کو روشنی سے اور خوبصورتی کو بدصورتی سے۔ اللہ کے لیے کوئی ضد نہیں۔ وہ ایسا نور ہے جس کے مقابلے میں کوئی تاریکی نہیں۔ اس وجہ سے ظاہری حواس کے لیے اس نور کا ادراک ممکن نہیں۔ اسی سلسلے میں مولائے متقیان سے روایت ہے: و ابین مما تری العیون ۔ (نہج البلاغۃ) تیرا وجود نگاہوں میں آنے والی چیزوں سے بھی روشن ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ وہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش پر مستقر ہوا اللہ کے علم میں ہے جو کچھ زمین کے اندر جاتا ہے اور جو کچھ اس سے باہر نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، تم جہاں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔

مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ : یعنی جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے۔ باہر سے زمین میں داخل ہونے والا بیج، پانی وغیرہ تو انسانوں کے بھی علم میں ہے۔ ان کے علاوہ جو چیزیں زمین کی تہ میں جا کر انسانوں کے لیے کیا چیزیں نکالتی ہیں؟ ان کا علم اللہ ہی کو ہے۔ یہ تدبیر کائنات سے متعلق جزئیات کا ذکر ہے، جو عرش پر متمکن ہونے کا لازمہ ہے۔ بایں معنی کہ عرش الٰہی اللہ کے مقام تدبیر کا نام ہے۔

لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ﴿۵﴾

۵۔ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے اور تمام امور اسی کی طرف پلٹا دیے جاتے ہیں۔

یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ؕ وَ ہُوَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۶﴾

۶۔ وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ سینوں کے راز کو خوب جانتا ہے۔

6۔ دن کو گھٹا کر رات میں داخل فرماتا ہے اور رات کو گھٹا کر دن میں داخل فرماتا ہے۔ اس طرح موسم کی تبدیلیوں میں ایک حکمت و مصلحت مضمر ہے۔

اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا لَہُمۡ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ﴿۷﴾

۷۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور (راہ خدا میں) خرچ کریں ان کے لیے بڑا ثواب ہے۔

7۔ خطاب اہل ایمان سے ہے کہ اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرو تاکہ اس کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو جائیں اور اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرو، جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنا نائب بنایا ہے۔ مالک حقیقی وہی ذات ہے۔ انسان کو اللہ نے جائز مصارف میں مال خدا خرچ کرنے کے لیے اپنا نائب بنایا ہے، ساتھ ہی اللہ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ اس مال کے راہ خدا میں خرچ کرنے پر وہ اجر کبیر بھی عطا فرماتا ہے۔ مال اگرچہ اسی ذات کا ہے، لیکن اس نائب نے خیانت نہیں کی، لہٰذا اس بات کا انعام دیا جاتا ہے۔

وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ۚ وَ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ لِتُؤۡمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ وَ قَدۡ اَخَذَ مِیۡثَاقَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸﴾

۸۔ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے؟ جب کہ رسول تمہیں تمہارے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے مضبوط عہد لے چکا ہے اگر تم ماننے والے ہو۔

8۔ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم براہ راست وحی کے ذریعے تمہیں ایمان کی دعوت دے رہے ہیں، اس کے باوجود تم غیر ایمانی روش اختیار کر رہے ہو۔ واضح رہے یہ خطاب بھی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد و پیش اہل ایمان سے ہے۔ اگر ہم اَخَذَ کا فاعل رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لیتے ہیں، جیسا کہ مفسر ابن کثیر نے لیا ہے، اس صورت میں میثاق سے مراد وہ بیعت ہے جو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابہ کرام سے لیتے رہے ہیں۔ اس صورت میں مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ سے مراد عدم اطاعت ہو سکتی ہے۔ یعنی تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی اطاعت نہیں کرتے۔ آخر آیت میں اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ اگر تم مومن ہو، اس تفسیر پر قرینہ بن سکتا ہے۔ یعنی رسمی ایمان والوں کو حقیقی ایمان کی دعوت ہے۔ اگر تم مومن ہو تو تمہارے ایمان کے اثرات سامنے آنے چاہیں۔ مثلا انفاق فی سبیل اللہ۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ بِکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۹﴾

۹۔وہ وہی ہے جو اپنے بندے پر واضح نشانیاں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لائے، یقینا اللہ تم پر نہایت شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔

وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَا یَسۡتَوِیۡ مِنۡکُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے جب کہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ کے لیے ہے؟ تم میں سے جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور قتال کیا وہ (دوسروں کے) برابر نہیں ہو سکتے، ان کا درجہ بہت بڑا ہے ان لوگوں سے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور مقاتلہ کیا، البتہ اللہ تعالیٰ نے ان سب سے اچھائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہ ہے۔

10۔ فتح سے مراد بعض کے نزدیک مکہ اور بعض کے نزدیک صلح حدیبیہ ہے، جسے قرآن میں فتح مبین کہا ہے۔ اس میں سب سے بلند درجہ ان ہستیوں کا ہے، جنہوں نے مال کے ساتھ جہاد بھی کیا۔ اَنۡفَقَ۔۔۔۔قٰتَلَ ۔