آیت 3
 

ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۳﴾

۳۔ وہی اول اور وہی آخر ہے نیز وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ: اللہ تعالیٰ کا اول ہونا کسی زمانے کے اعتبار سے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ زمانے سے ماوراء ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسن علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک خطبے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

الْحمد للّٰہ الذی لم یکن لہ اول معلوم ولا آخر متناہ۔ (التوحید: ۴۵)

حمد ہے اس اللہ کے لیے جس کا اول نامعلوم اور آخر لامتناہی ہے۔

یعنی نہ اول کی ابتدا معلوم ہے اور نہ آخر کی انتہا۔

اللہ کا اول ہونا اس اعتبار سے ہے کہ اس سے پہلے کوئی شے نہیں ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے مروی فرمان ہے:

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْاَوَّلِ فَلَا شَیْئَ قَبْلَہُ وَ الْآخِرِ فَلَا شَیْئَ بَعْدَہَ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۹۶)

حمد ہے اس اللہ کے لیے جو اول ہے۔ اس سے پہلے کوئی شے نہیں ہے اور آخر ہے اس کے بعد کوئی شے نہ ہو گی۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

لَوْ کَانَ قَبْلَہُ شَیْئٌ کَانَ الْاَوَّلَ ذَلِکَ الشَّیْئُ لَا ھَذَا وَ کَانَ الْاَوَّلُ اَوْلَی بِاَنْ یَکُونَ خَالِقاً لِلْاَوَّلِ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۱۲۰)

اگر اللہ سے پہلے کوئی چیز ہوتی تو وہی اول ہو جاتی نہ یہ اور وہ اول ہی اول ہونے کی وجہ سے خالق ہو جاتا۔

التوحید میں للاول کی جگہ للثانی ہے جو زیادہ قرین واقع معلوم ہوتا ہے۔ یعنی وہ اول ہی ثانی کا خالق ہوتا نیز جب اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو اللہ کا ہر چیز سے پہلے ہونا ضروری ہے ورنہ اگر کوئی چیز اللہ سے پہلے موجود ہے تو اس پر اللہ کی قدرت نہیں ہے۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو کوئی شے اس کے احاطۂ قدرت سے خارج نہیں ہے۔ نہ اس سے پہلے کوئی چیز موجود ہے، نہ اس کے بعد کوئی چیز موجود رہ جاتی ہے۔

۲۔ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ: اس کائنات میں ہر چیز اس کی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ روشنی تاریکی سے پہچانی جاتی ہے۔ لیکن اللہ کی کوئی ضد نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی فرمان ہے:

وَ بِمُضَادَّتِہِ بَیْنَ الْاَشْیَائِ عُرِفَ اَنْ لَا ضِدَّ لَہُ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۱۸۶)

اپنی مخلوق اشیاء کے درمیان تضاد پیدا کرنے سے معلوم ہوا خود اللہ کی کوئی ضد نہیں ہے۔

لہٰذا اللہ وہ نور ہے جس کے مقابلے میں کوئی تاریکی نہیں ہے۔ اس لیے اپنے شدت ظہور اور فرط نور کی وجہ سے حواس کے لیے اس نور کا ادراک ممکن نہیں۔

اسی مطلب کو مولی الموحدین امیرالمومنین علی علیہ السلام نے بمطابق روایت فرمایا:

وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۱۵۵)

تیرا وجود نگاہوں میں آنے والی چیزوں سے بھی زیادہ روشن ہے۔

۳۔ وَ الۡبَاطِنُ: اسی فرط ظہور کی وجہ سے وہ باطن ہے۔ یعنی شدت ظہور کی وجہ سے وہ باطن ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے:

الْبَاطِنُ لَا بِاجْتَنَانٍ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۱۳۹)

وہ باطن ہے، پوشیدہ رہ کر نہیں۔

باطن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پوشیدہ ہے بلکہ اس لحاظ سے باطن ہے کہ اس کے وجود میں تمام اشیاء کا علم اور تدبیر ہے اور وہ اوہام کی رسائی سے دور ہے۔


آیت 3