آیات 112 - 115
 

قَالَ وَ مَا عِلۡمِیۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۱۲﴾ۚ

۱۱۲۔نوح نے کہا: مجھے علم نہیں وہ کیا کرتے رہے ہیں۔

اِنۡ حِسَابُہُمۡ اِلَّا عَلٰی رَبِّیۡ لَوۡ تَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۱۳﴾ۚ

۱۱۳۔ ان کا حساب تو صرف میرے رب کے ذمے ہے، کاش تم اسے سمجھتے۔

وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۴﴾ۚ

۱۱۴۔ اور میں مومنوں کو دھتکار نہیں سکتا۔

اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۱۱۵﴾ؕ

۱۱۵۔ میں تو صرف صاف اور صریح انداز میں تنبیہ کرنے والا ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ بعض نے کہا ہے: کافروں کا مقصد یہ کہنا تھا کہ یہ لوگ پیشے کے ساتھ کردار میں بھی کمتر درجے کے ہیں۔ اس توجیہ سے آیات میں ربط معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ایمان لانے سے پہلے وہ کیا کرتے رہے ہیں؟ اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ ان کا حساب اللہ کے پاس ہے۔ یعنی ایمان سے ان کے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

۲۔ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: ایمان لانے کے بعد کوئی رسول کسی کو اپنی درگاہ سے نہیں دھتکارتا۔ چنانچہ قریش نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی مطالبہ کیا تھا کہ اگر ایمان لائیں بھی تو ہم عمار، بلال اور صہیب جیسے لوگوں کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں سورہ انعام آیت ۵۲ میں رسول اللہ کے لیے یہ حکم آیا:

وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ ۔۔۔۔۔

اور جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ان کو اپنے سے دور نہ کریں۔


آیات 112 - 115