آیت 31
 

فَلَمَّا سَمِعَتۡ بِمَکۡرِہِنَّ اَرۡسَلَتۡ اِلَیۡہِنَّ وَ اَعۡتَدَتۡ لَہُنَّ مُتَّکَاً وَّ اٰتَتۡ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنۡہُنَّ سِکِّیۡنًا وَّ قَالَتِ اخۡرُجۡ عَلَیۡہِنَّ ۚ فَلَمَّا رَاَیۡنَہٗۤ اَکۡبَرۡنَہٗ وَ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ وَ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا ؕ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌ﴿۳۱﴾

۳۱۔ پس اس نے جب عورتوں کی مکارانہ باتیں سنیں تو انہیں بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (کہ پھل کاٹیں) پھر اس نے یوسف سے کہا ان کے سامنے نکل آؤ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہ اٹھیں: پاک ہے اللہ، یہ بشر نہیں، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے۔

تشریح کلمات

مُتَّکَاً:

( ت ک ء ) تکیہ جس پر ٹیک لگائی جاتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا سَمِعَتۡ بِمَکۡرِہِنَّ: عزیز مصر کی بیوی کو جب علم ہوا کہ اس کی ہم رتبہ عورتوں نے اپنے زر خرید غلام سے معاشقہ کرنے پر طعنہ زنی شروع کی ہے تو اس نے ان کے خلاف ایک ایسا حربہ استعمال کیا جس سے وہ بھی رسوا ہو جائیں اور شریک جرم ہونے کی وجہ سے اس کی تضحیک کرنا اور طعنہ زنی بند کر دیں۔

۲۔ وَ اَعۡتَدَتۡ لَہُنَّ مُتَّکَاً: تکیوں سے آراستہ مجلس کا اہتمام اور کھانے کے لیے چھریوں کا استعمال بتاتا ہے کہ اس مجلس میں اونچے خاندان کی خواتین مدعو تھیں۔ مصری تہذیب و تمدن کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں سال پہلے کس حد تک ترقی یافتہ تھی۔ چنانچہ مصری تہذیب کے آثار قدیمہ سے بھی اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ مصری اپنی مجلسوں میں تکیے استعمال کرتے تھے۔

۳۔ مَا ہٰذَا بَشَرًا: چنانچہ جب جمال یوسف علیہ السلام کے مشاہدے سے حواس باختہ ہو کر ان عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹنا شروع کیے تو عزیز مصر کی عورت اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ خصوصاً جب ان عورتوں نے جمال صورت کے ساتھ کمال سیرت اور کردار کی طہارت کے آثار بھی دیکھے اور کہا یہ تو مکرم فرشتہ ہے تو ان کو اندازہ ہوا کہ زلیخا نہ صرف عشق کی آگ میں سوزاں ہے بلکہ اسے اپنے معشوق کے پاکیزہ کردار ہونے کی وجہ سے اس کی بے اعتنائی کا بھی سامنا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عورتیں زیادہ حسن پرست ہوتی ہیں۔

۲۔ا ٓیت میں عورتوں کی مکاری کی ایک بڑی مثال موجود ہے۔


آیت 31