بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ (اے رسول) ہم نے آپ کو فتح دی، ایک نمایاں فتح۔

1۔ 6 ہجری ذوالقعدہ کے مہینے میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تقریباً ڈیڑھ ہزار اصحاب کی معیت میں بقصد عمرہ مدینے سے مکے کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سے پہلے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کرام کو وہ خواب بھی سنایا تھا کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ تشریف لے جاتے اور عمرہ بجا لاتے ہیں۔ ادھر قریش والوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ ایک طرف تو ذوالقعدہ جیسے حرمت کے مہینے میں عمرہ یا حج سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ دوسری طرف سے اگر مسلمانوں کا اتنا بڑا قافلہ مکے میں داخل ہو گیا تو اس سے قریش کا سارا رعب ختم ہو جائے گا۔ ادھر مسلمانوں کا قافلہ حدیبیہ پہنچ گیا اور قریش کے ساتھ ایلچیوں کا تبادلہ شروع ہوا۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عثمان کو قریش کے پاس بھیجا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں، بلکہ صرف بیت اللہ کی زیارت کے لیے احرام باندھ کر قربانی کے اونٹوں کے ساتھ آئے ہیں۔ اسی دوران خبر اڑی کہ عثمان کو قتل کیا گیا ہے۔ اس سے جنگ کا خطرہ لاحق ہو گیا، جبکہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہو کر نہیں آئے تھے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کو جمع کیا اور جنگ سے فرار نہ کرنے پر سب سے بیعت لی جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ بعد میں قتل عثمان کی خبر غلط نکلی۔ قریش نے صلح پر آمادگی ظاہر کی۔ طویل بحث کے بعد درج ذیل شرائط پر حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک سے یہ صلح نامہ لکھا گیا: ٭ دس سال تک جنگ بند رہے گی۔ ٭ قریش کا جو شخص رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بھاگ کر جائے گا اسے واپس کرنا ہو گا اور رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس جائے اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ ٭قبائل میں سے کوئی قبیلہ کسی ایک فریق کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔ ٭ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمرہ کیے بغیر واپس جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ کر سکیں گے۔

اس معاہدے کو قریش نے اپنی فتح سمجھا اور مسلمانوں میں اضطراب پھیل گیا۔ بعض صحابہ کو تو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر شک ہونا شروع ہوا کہ ہم تو قریش کے آدمی واپس کریں، لیکن وہ ہمارے آدمی واپس نہ کریں!!۔ پھر اس خواب کا کیا مطلب تھا جو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا تھا؟ صلح حدیبیہ سے واپس جاتے ہوئے راستے میں سورۃ الفتح، فتح و نصرت کی نوید لے کر نازل ہوئی۔ چنانچہ بعد میں سب نے عملاً دیکھ لیا کہ اس معاہدے کی برکت سے اسلام کو ایک باغیانہ تحریک کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک دین کے طور تسلیم کیا گیا۔ جنگ بندی سے امن کی فضا بحال ہو گئی، جس میں اسلام نے خوب پھلنا پھولنا شروع کیا۔ صرف چند ماہ بعد خیبر فتح ہو گیا اور دو سال کے قلیل عرصے میں 1400 کا یہ لشکر دس ہزار کی تعداد کے ساتھ مکے میں داخل ہو گیا۔

لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ تاکہ اللہ آپ کی (تحریک کی) اگلی اور پچھلی خامیوں کو دور فرمائے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کرے اور آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی فرمائے۔

2۔ یعنی اس صلح سے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لشکر کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کی تلافی کر دی گئی اور اس صلح سے فتح و نصرت کے وہ دوازے کھل گئے، جو پچھلے 19 سالوں میں نہ کھل سکے تھے۔ واضح رہے کہ اگرچہ یہاں خطاب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہے، لیکن کوتاہی خود رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صادر نہیں ہوئی، بلکہ اس مشن میں شریک لوگوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً ہوتی رہی۔

وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا﴿۳﴾

۳۔ اور اللہ آپ کو ایسی نصرت عنایت فرمائے جو بڑی غالب آنے والی ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ ؕ وَ لِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ وہی اللہ ہے جس نے مومنین کے دلوں پر سکون نازل کیا تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ مزید ایمان کا اضافہ کرے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

4۔ مسلمانوں کا قافلہ نہتا ہو کر اس دشمن کے پاس جا رہا ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور جنہوں نے ایک سال پہلے مسلمانوں کے خلاف احزاب کی جنگ لڑی تھی۔ اس وقت اللہ نے ان کے دلوں پر سکون نازل کیا۔ ایمان کے درجات ہوتے ہیں اور مختلف حالات میں انسان کے ایمان میں تقویت یا کمزوری آیا کرتی ہے۔

لِّیُدۡخِلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ یُکَفِّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عِنۡدَ اللّٰہِ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ۙ﴿۵﴾

۵۔ تاکہ اللہ مومنین اور مومنات کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان کے گناہوں کو ان سے دور کر دے اور اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

وَّ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ الظَّآنِّیۡنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوۡءِ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ۚ وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ لَعَنَہُمۡ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا﴿۶﴾

۶۔ اور (اس لیے بھی کہ) منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو جو اللہ کے بارے میں بدگمانی کرتے ہیں عذاب میں مبتلا کرے، یہ لوگ گردش بد کا شکار ہو گئے اور ان پر اللہ نے غضب کیا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم آمادہ کر رکھی ہے جو بہت برا انجام ہے۔

6۔ منافقین کو یہ گمان تھا کہ اب مسلمان اس خطرناک سفر سے واپس نہیں آ سکیں گے۔

وَ لِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۷﴾

۷۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ کے ہیں اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ﴿۸﴾

۸۔ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے،

8۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرآن میں متعدد مقامات پر شاہد کہا ہے۔ یہ گواہی بندوں کے اعمال سے متعلق ہے۔ دنیا میں وہ ان اعمال کے مطابق بشارت اور نظارت کی ذمہ داری اٹھائیں گے۔ آخرت میں ان اعمال کی گواہی دیں گے۔

لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۹﴾

۹۔ تاکہ تم (مسلمان) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد کرو، اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللّٰہَ فَسَیُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ بتحقیق جو لوگ آپ کی بیعت کر رہے ہیں وہ یقینا اللہ کی بیعت کر رہے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے، پس جو عہد شکنی کرتا ہے وہ اپنے ساتھ عہد شکنی کرتا ہے اور جو اس عہد کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے تو اللہ عنقریب اسے اجر عظیم دے گا۔

10۔ یہ بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ اس بیعت کو الٰہی قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔