بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے پوری طرح صف باندھنے والوں کی،

فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ پھر بطور کامل جھڑکی دینے والوں کی،

فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ پھر ذکر کی تلاوت کرنے والوں کی،

اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ ﴿ؕ۴﴾

۴۔ یقینا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔

1 تا4۔ قسم ان فرشتوں کی جو صف بستہ عبادت میں کھڑے ہیں اور ان فرشتوں کی قسم جو شیاطین کو دور بھگا دیتے ہیں اور ان فرشتوں کی قسم جو وحی کی تلاوت کرتے ہیں کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ یعنی عالم بالا، عالم ارضی اور ان دونوں کے درمیان جو نظام قائم ہیں وہ صرف ایک ہی معبود کی نشاندہی کرتے ہیں۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ رَبُّ الۡمَشَارِقِ ؕ﴿۵﴾

۵۔ جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب اور مشرقوں کا رب ہے۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ ۙ﴿۶﴾

۶۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا،

6۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو ستارے اور کہکشائیں انسان کے مشاہدے میں آتی ہیں وہ سب سات آسمانوں میں سے صرف پہلے آسمان السَّمَآءَ الدُّنۡیَا سے متعلق ہیں، بلکہ پہلے آسمان کے بارے میں بھی انسانی مشاہدات اور معلومات نہایت محدود ہیں، جبکہ آسمان اول کا جو حصہ انسانی مشاہدے میں آیا ہے اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ بعض کہکشاؤں سے روشنی اربوں سالوں سے چلی آ رہی ہے لیکن ابھی ہم تک نہیں پہنچی۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو چوراسی میل فی سیکنڈ ہے۔

وَ حِفۡظًا مِّنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ مَّارِدٍ ۚ﴿۷﴾

۷۔ اور ہر سرکش شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ بھی،

لَا یَسَّمَّعُوۡنَ اِلَی الۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰی وَ یُقۡذَفُوۡنَ مِنۡ کُلِّ جَانِبٍ ٭ۖ﴿۸﴾

۸۔ کہ وہ عالم بالا کی طرف کان نہ لگا سکیں اور ہر طرف سے ان پر (انگارے) پھینکے جاتے ہیں۔

دُحُوۡرًا وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ۙ﴿۹﴾

۹۔ دھتکارے جاتے ہیں اور ان پر دائمی عذاب ہے ۔

اِلَّا مَنۡ خَطِفَ الۡخَطۡفَۃَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ﴿۱۰﴾

۱۰۔ مگر ان میں سے جو کسی بات کو اچک لے تو ایک تیز شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

10۔ سورہ حجر آیت 18 میں شہاب ثاقب کے بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ عربوں میں کہانت کا بڑا چرچا تھا اور کاہنوں سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کا رواج عام تھا۔ کاہنوں کا یہ دعویٰ تھا کہ جن اور شیاطین ان کو یہ خبریں بتاتے ہیں۔ مشرکین نے رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی کاہن ہونے کا الزام لگایا جیسا کہ سورہ شعراء میں اس کی رد آئی ہے: وَ مَا تَنَزَّلَتۡ بِہِ الشَّیٰطِیۡنُ﴿﴾ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہُمۡ وَ مَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ﴿﴾ اِنَّہُمۡ عَنِ السَّمۡعِ لَمَعۡزُوۡلُوۡنَ﴿﴾ اور اس قرآن کو شیاطین نے نہیں اتارا اور نہ یہ کام ان سے مناسبت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ استطاعت رکھتے ہیں۔ وہ (وحی) سننے سے دور رکھے گئے ہیں۔