بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

طٰسٓ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡقُرۡاٰنِ وَ کِتَابٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۱﴾

۱۔ طا، سین، یہ قرآن اور کتاب مبین کی آیات ہیں۔

ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾

۲۔ مومنین کے لیے ہدایت و بشارت ہیں۔

2۔ چونکہ اس قرآن سے فائدہ اٹھانے والے اہل ایمان ہی ہوتے ہیں، لہٰذا یہ قرآن انہی کو ہدایت اور انہی کو بشارت دیتا ہے۔

الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

3۔ عقیدہ آخرت دنیوی زندگی کو معقولیت بخشتا اور خواہشات کو لگام دیتا ہے، جبکہ آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے لیے یہی زندگی سب کچھ ہے اور انہیں کسی جوابدہی کا خوف نہیں ہے۔ اس لیے ان کی خواہشات کو لگام نہیں لگتی، جس کے نتیجے میں ان سے اطمینان و سکون سلب ہو جاتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ زَیَّنَّا لَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فَہُمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

۴۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یقینا ان کے لیے ہم نے ان کے افعال خوشنما بنا دیے ہیں پس وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِ وَ ہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡاَخۡسَرُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں ہوں گے۔

وَ اِنَّکَ لَتُلَقَّی الۡقُرۡاٰنَ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ عَلِیۡمٍ﴿۶﴾ ۞ؓ

۶۔ اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقینا ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔

6۔ ابتدائے بعثت میں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جن حوصلہ شکن مشکلات کا سامنا تھا ان کے تناظر میں اس آیت کی تلاوت کی جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ قرآن ایک حکیم و علیم ذات کی طرف سے ہے۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مشکلات کا سامنا کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس میں علم کی کمی کا خدشہ ہے، نہ حکمت کے فقدان کا خوف ہے۔

اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِاَہۡلِہٖۤ اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا ؕ سَاٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِخَبَرٍ اَوۡ اٰتِیۡکُمۡ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ (اس وقت کا ذکر کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں جلد ہی اس میں سے کوئی خبر لے کر تمہارے پاس آتا ہوں یا انگارا سلگا کر تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔

7۔حضرت موسیٰ علیہ السلام مَدیَنَ میں چند سال گزار کر واپس جاتے ہوئے صحرائے سینا سے گزر رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔

فَلَمَّا جَآءَہَا نُوۡدِیَ اَنۡۢ بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو ندا دی گئی: بابرکت ہو وہ (جس کا جلوہ) آگ کے اندر ہے اور (بابرکت ہو) وہ جو اس کے پاس ہے اور پاکیزہ ہے سارے جہاں کا رب اللہ۔

بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ بابرکت ہے وہ جو آگ کے اندر ہے۔ یعنی بابرکت ہے وہ جس کا جلوہ آگ کے اندر ہے۔ وَ مَنۡ حَوۡلَہَا بابرکت ہے وہ جو اس آگ کے گرد و پیش میں ہے، یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔ یعنی وہ ذات جو ندا دے رہی ہے اور وہ جو یہ ندا سن رہا ہے، دونوں بابرکت ہیں۔ البتہ اللہ کی ذات بذات خود بابرکت ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے بابرکت ہو گئے ہیں۔ واضح رہے یہ روشنی بظاہر دیکھنے میں آگ نظر آتی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اسے آگ تصور کیا تھا، اس لیے اسے آگ کہا، ورنہ درحقیقت یہ نار نہیں، نور تھا۔

سُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ سے اس وہم و گمان کا ازالہ ہو جاتا ہے کہ اللہ آگ میں یا درخت میں حلول ہو گیا ہے۔ (پاک و منزہ ہے وہ ذات ہر احتیاج سے)۔

یٰمُوۡسٰۤی اِنَّہٗۤ اَنَا اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اے موسیٰ! یقینا میں ہی غالب آنے والا، حکمت والا اللہ ہوں۔

9۔وحی کو انبیاء عام ذرائع، مثلاً سمعی و بصری ذرائع، جن میں اشتباہ اور شک کے لئے گنجائش رہتی ہو، سے وصول نہیں کرتے، بلکہ اپنے پورے وجود کے ساتھ وصول کرتے ہیں اور جس طرح اپنے وجود کا ادراک ناقابل شک و تردید ہوتا ہے، اسی طرح وحی بھی ناقابل شک و تردید ہوتی ہے۔

وَ اَلۡقِ عَصَاکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہۡتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ ؕ یٰمُوۡسٰی لَا تَخَفۡ ۟ اِنِّیۡ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿٭ۖ۱۰﴾

۱۰۔ اور آپ اپنا عصا پھینک دیں، جب موسیٰ نے دیکھا کہ عصا سانپ کی طرح جنبش میں آ گیا ہے پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر (بھی) نہ دیکھا (ندا آئی) اے موسیٰ! ڈریے نہیں، بے شک میرے حضور مرسلین ڈرا نہیں کرتے۔