آیات 10 - 12
 

وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ جب کہ تم پر نگران مقرر ہیں،

کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ ایسے معزز لکھنے والے،

یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ جو تمہارے اعمال کو جانتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ انسان اپنے اعمال کی گرفت میں ہیں اور ان کے اعمال کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے۔ انسان کے اعمال محفوظ رکھنے والے متعدد ہیں جیسا کہ حافظین سے ظاہر ہے:

ایک طرف انسان کا عمل انرجی ہونے کی وجہ سے انمٹ ہے۔

دوسری طرف اس کا عمل لوح کائنات پر ثبت ہو رہا ہے۔

تیسری طرف خود انسان کے اپنے اعضاء گواہ بن جائیں گے۔

چوتھی طرف اللہ کے مامور فرشتے انسان کے اعمال لکھ رہے ہیں۔

پانچویں: اللہ کے رسولؐ اور ائمہ علیہم السلام ہمارے اعمال کے شاہد ہیں۔

چھٹی طرف خود اللہ تعالیٰ ان سب کے اوپر حاضر و ناظر ہے۔

۲۔ کِرَامًا: یہ حافظین، اللہ کے نزدیک مقام عزت پر فائز ہیں۔ یہ منصب انہیں دیا جاتا ہے جو اللہ کے نزدیک بلند مقام رکھتے ہیں: کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ۔

۳۔ کَاتِبِیۡنَ: اعمال عباد لکھتے ہیں یعنی عین عمل ثبت کرتے ہیں۔ فرشتوں کی کتابت ان اوزار کے ذریعے نہیں ہو گی جو انسان استعمال کرتا ہے۔

یَوۡمَ تَجِدُ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ مِنۡ خَیۡرٍ مُّحۡضَرًا ۚۖۛ وَّ مَا عَمِلَتۡ مِنۡ سُوۡٓءٍ۔۔۔۔ (۳ آل عمران۔۳۰)

اس دن ہر شخص اپنا نیک عمل حاضر پائے گا اسی طرح ہر برا عمل بھی۔

۴۔ یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ: یہ لکھنے والے ایسے نہیں جو کسی قسم کی غلطی کر سکیں۔ جو کچھ وہ لکھتے ہیں تمہارے اعمال کے عینی شاہد اور علم حضوری کی بنیاد پر لکھتے ہیں۔

کتاب سعد السعود صفحہ ۲۲۵ میں مرسلاً ذکر ہے:

ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے ہیں۔ ایک اعمال خیر دوسرا اعمال شر لکھتا رہے گا۔ موت قریب آنے پر نیک مؤمن سے کہے گا: تجھے خدا جزائے خیر دے تو نے کتنے صالح اعمال ہمیں دکھائے اور کتنی اچھی محفلوں میں ہمیں بٹھایا۔ آج ہم تیری پسند کے مطابق تیری شفاعت کریں گے اور اگر یہ شخص نافرمان رہا ہے تو یہ فرشتہ اس سے کہے گا: خدا تجھے نہ بخشے۔ برے اعمال سے تو نے ہمیں کتنی اذیت دی۔ کتنی بری باتیں تو نے ہمیں سنائیں اور کتنی بری محفلوں میں تو نے ہمیں بٹھایا۔ آج تمہاری خواہش کے خلاف رب کے سامنے گواہ ہوں گے۔


آیات 10 - 12