آیت 19
 

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا کَیۡفَ یُبۡدِئُ اللّٰہُ الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ﴿۱۹﴾

۱۹۔ کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ آسان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ لَمۡ یَرَوۡا: کیا ان لوگوں نے کبھی غور نہیں کیا۔ روئیت سے مراد روئیت قلبی لیا جائے تو عقل و فکر کو سوچنے کی دعوت ہے کہ جو ذات، خلقت کی ابتدا کر سکتی ہے وہ اعادہ بھی کر سکتی ہے۔

۲۔ کَیۡفَ یُبۡدِئُ اللّٰہُ الۡخَلۡقَ: غور و فکر اس بات میں کرنا ہے کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے۔ اگر خلقت کی ابتدا سمجھ میں آ جائے تو اعادہ سمجھ میں آنا آسان ہو جائے گا۔ خلقت کی ابتدا میں مشرکین کو اختلاف نہیں ہے تو اعادہ میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا سے مراد اگر ہم روئیت حسی و بصری لیں تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ کیا تم روز نہیں دیکھتے کہ اللہ خلقت کی ابتدا و اعادہ کس طرح کرتا ہے۔ اعادہ کا مطلب یہ ہے کہ تحلیل شدہ عناصر کو دوبارہ تخلیقی عناصر میں شامل کرنا۔ اس کا ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ اسے کیمیکل تبدیلی کہتے ہیں۔ انسان کا اپنا مادی وجود خلق و اعادہ خلق سے عبارت ہے۔ انسانی خلیات (Cells) ہمیشہ گرتے، ختم ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی جگہ خون کے ذریعے دوبارہ ان خلیات کا اعادہ تخلیق ہوتا رہتا ہے۔ انسان کا ڈھانچہ اسی خلق و اعادہ خلق پر قائم ہے۔ ایک لذیذ غذا فضلہ میں، پھر یہ فضلہ کھاد کی صورت میں ایک پھول کی تخلیق میں، پھر یہ پھول تحلیل ہو کر دیگر کسی نبات کا عنصر تخلیق بن جاتا ہے۔

لاوازیہ (Lavazieh) کے نظریے کے بعد تو اب یہ بات سب پر واضح ہے کہ دنیا میں کوئی چیز معدوم نہیں ہوتی اور کسی چیز کو دوام بھی نہیں ہے۔ مظاہر قدرت خلق و اعادہ خلق سے عبارت ہے۔ خلق و اعادہ خلق کے ذریعے دنیا میں شادابی اور زندگی کو رونق حاصل ہے۔

۳۔ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ: خود تمہارا اعادہ خلق اللہ کے لیے آسان ہے۔ اللہ کے لیے آسان اور مشکل کا تصور نہیں ہے۔ انسانی سوچ کے مطابق ابتدا کی بہ نسبت اعادہ اور نقش دوم آسان ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کی رونق، خلق و اعادہ خلق سے ہے۔


آیت 19