آیت 17
 

اِنَّمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا وَّ تَخۡلُقُوۡنَ اِفۡکًا ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لَکُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ وَ اعۡبُدُوۡہُ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ تم تو اللہ کو چھوڑ کر بس بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑ لیتے ہو، اللہ کے سوا تم جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، لہٰذا تم اللہ کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو، تم اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔

تشریح کلمات

اوثان:

( و ث ن ) وثن ۔ بت۔ اوثان ان پتھروں کو کہا گیا ہے جن کی پرستش جاہلیت میں کی جاتی تھی۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا: سابقہ آیت میں اللہ کی عبادت اور تقویٰ کی دعوت دینے کے بعد دیگر جعلی معبودوں کی نفی ہو رہی ہے۔ اللہ کی جگہ تم تو بتوں کی پوجا کرتے ہو۔ اللہ کی جگہ بت!!! کوئی موازنہ نہیں، کوئی مقابلہ نہیں۔ کل ہستی اور نیستی میں کیا مقابلہ ہے؟

۲۔ وَّ تَخۡلُقُوۡنَ اِفۡکًا: تم ایک جھوٹ گھڑ لیتے ہو۔ بت کے متعلق ساری باتیں خود تمہاری گھڑی ہوئی ہیں۔ یہ بت نہ تو تمہارے خالق ہیں، نہ تمہارے رازق ہیں۔ یہ تو صرف تمہاری ذہنی تخلیق ہے۔ ان سے منسوب باتیں ہی صرف گھڑی ہوئی نہیں ہیں بلکہ خود ان کا ظاہری وجود بھی خود تمہارا تراشا ہوا ہے۔

۳۔ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لَکُمۡ رِزۡقًا: جن معبودوں کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں وہ ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ وہ ان بتوں کی پوجا صرف دنیوی مفادات کے لیے کرتے ہیں۔ آخرت کے تو یہ لوگ قائل نہیں ہیں۔ مشرکین جن بتوں کی پوجا کرتے تھے وہ فرشتوں اور جنوں کی شبیہ تھے۔ وہ ان شبیہوں کی پوجا اس لیے کرتے تھے کہ وہ فرشتے اور جنات خوش ہو جائیں جن کے ہاتھ میں ان کے خیال میں ان کا رزق ہے۔ فرمایا: ان بتوں کے ہاتھ میں تمہارا رزق نہیں ہے۔

۴۔ فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ وَ اعۡبُدُوۡہُ: تمہارا رزق اللہ کے پاس ہے۔ اللہ سے اپنا رزق طلب کرو اور عبادت بھی اسی رازق کی کرو۔ اس سے یہ بات مزید واضح ہو گئی کہ عبادت رازق کی ہوتی ہے۔ ہم نے عبادت کی یہ تعریف کئی بار واضح کی ہے کہ کسی ذات کو خالق اور رب سمجھ کر اس کی تعظیم کی جائے وہ تعظیم عبادت ہے، نہ ہر تعظیم۔ اس جگہ مشرکین اپنے بتوں کو رازق سمجھ کر ان کی تعظیم کرتے تھے۔ رازق ہونا رب ہونے کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔

۵۔ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ: عبادت صرف دنیوی مفادات کے لیے نہیں ہوتی بلکہ عبادت کا اصل مقصد سعادت ابدی ہے اور اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور حساب دینے کے بعد اس سعادت کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ رازق صرف اللہ ہے۔ عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہیے۔

۲۔ غیر اللہ سے مفادات وابستہ کرنا ایک واہمہ ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔


آیت 17