آیت 14
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَہُمُ الطُّوۡفَانُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان کے درمیان پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے، پھر طوفان نے انہیں اس حال میں اپنی گرفت میں لیا کہ وہ ظلم کا ارتکاب کر رہے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ: حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں الاعراف :۵۹، یونس : ۷۱، ہود آیات از ۲۵ تا ۴۹ ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا: وہ اپنی قوم میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے۔ بظاہر یہ حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت کی مدت ہے، عمر کی نہیں۔رسالت پر مبعوث ہونے سے پہلے کی عمر اور قوم کی تباہی کے بعد کی مدت کا اس میں ذکر نہیں ہے۔ اس قدر لمبی مدت تبلیغ و ارشاد اور قوم کی طرف سے تکذیب و آزار کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے باعث تسلی و تقویت ہے۔

توریت میں آیا ہے کہ طوفان کے وقت حضرت نوح علیہ السلام کی عمر چھ سو سال تھی اور طوفان کے بعد ساڑھے تین سو سال زندہ رہے۔ مجموعاً ان کی عمر ساڑھے نو سال ہو جاتی ہے۔ (پیدائش باب نہم)

قرآن نے اس کی تصحیح فرمائی کہ ان کی رسالت کی مدت ساڑھے نو سو سال ہے۔

۳۔ فَاَخَذَہُمُ الطُّوۡفَانُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ: طوفان نوح کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ آسمان سے ایک یا چند بڑے اجرام سمندر میں گرے جس کی وجہ سے سمندروں کا پانی خشکی کے ایک بڑے علاقے پر طوفان کی شکل میں آ گیا۔


آیت 14