آیات 5 - 6
 

وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔

وَ نُمَکِّنَ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ نُرِیَ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ وَ جُنُوۡدَہُمَا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَحۡذَرُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں اور ان کے ذریعے ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ کچھ دکھا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا: یہاں ارادہ تکوینی ہے جو حتمی الوقوع ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی قانون ہے جو لوگ برائے خدا ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہے ہیں ان پر اللہ احسان ضرور کرے گا۔ ان تمام مظلوم قوموں کے لیے یہ ایک عظیم بشارت ہے جو عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنا اور ظلم و جور کا خاتمہ چاہتی ہیں۔آگے اس احسان کی نوعیت کا ذکر ہے:

۲۔ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً: انہیں اللہ انسانوں کی قیادت کا عہدہ عنایت فرمائے گا۔ امامت، دینی راہنمائی کا مقام ہے: وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا ۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۷۳ (ترجمہ) اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔) خواہ ان کے پاس حکومت ہو یا نہ ہو۔

۳۔ وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ: ہم ان مظلوم لوگوں کو وارث بنائیں گے۔ جانے والے کی جگہ لینے والے کو وارث کہتے ہیں۔ یہ وعدہ اگرچہ نزول کے اعتبار سے بنی اسرائیل کے لیے ہے لیکن لفظی عمومیت کے اعتبار سے اس وعدہ کی تطبیق مختلف قوموں پر ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰہِ ۟ۙ یُوۡرِثُہَا مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ﴿﴾ (۷ اعراف: ۱۲۸)

بے شک یہ سرزمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور نیک انجام اہل تقویٰ کے لیے ہے۔

دوسری آیت میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ﴿﴾ (۲۱ انبیاء: ۱۰۵)

اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

چنانچہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے کنعانیوں، آموریوں اور ارامیوں کا وارث بنایا جب کہ ان اقوام میں اپنے اپنے زمانے میں بڑے جابر لوگ تھے۔

۳۔ وَ نُمَکِّنَ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ: ہم ان مظلوموں کو زمین پر اقتدار دیں گے۔ تمکین ، کسی جگہ قدرت و استقرار کے ساتھ بیٹھنے کو کہتے ہیں۔

۴۔ وَ نُرِیَ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ: اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر کو اسی ذلت و خواری میں مبتلا کریں گے جس کا انہیں خوف تھا۔ فرعون و ہامان جیسے لوگوں کو تخت و تاج سے محروم کریں گے۔

الف: فرعون : قدیم نقوش سے بڑے ایوان کی تصویر سامنے آتی ہے جس میں بیٹھ کر مصر کا بادشاہ فیصلے اور احکام صادر کرتا ہے۔ اس میں دیوانہائے حکومت کا اجتماع ہوتا تھا۔ چنانچہ اس بڑے ایوان کو مصری پیرو کہتے تھے جس کا یہود نے فرعوہ یا فرعون کے ساتھ ترجمہ کیا اور بادشاہ کا لقب بھی اسی سے مشتق ہو گیا۔ ( تاریخ تمدن ول ڈیورینٹ ترجمہ عربی ۲: ۹۳ بحوالہ شبہات وردود ہادی معرفت )

ب: ہامان ۔ جو ( آمن ) کا معرب ہے اس نام کی تاریخ بھی فرعون کے نام ہی کی طرح ہے۔

مصر کے سب سے بڑے دیوتا کا نام آمن تھا۔ اس دیوتا کے عبادت خانہ کے متولی (کاہن) کا نام آمن پڑ گیا۔ چنانچہ تاریخ میں آیا ہے:

معبد آمن کے بڑے کاہن کا نام بھی آمن پڑ گیا جس نے سلسلہ شاہان مصر کے انیسویں خاندان کے دور سے بہت اہمیت حاصل کر لی تھی۔ یہاں تک کہ وہ دریائے نیل کے بالائی علاقوں پر مسلط ہو گیا اور افواج کی سربراہی اور شہنشاہی خزانے کے انچارج کا عہدہ حاصل کیا اور تمام عبادتگاہوں کے نگران اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز ہو گیا۔ ( تاریخ مصر تالیف لبرسٹیڈ صفحہ ۵۲۰)

واضح رہے عربی اور عبری تلفظ کے فرق کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً عبری تلفظ ابراہم، عمرام، موشی اور یسوع کا عربی تلفظ ابراہیم، عمران، موسیٰ اور عیسیٰ ہے اور آج بھی بہت دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک لفظ دوسری زبان میں جا کر تلفظ کی دوسری شکل اختیار کرتا ہے۔

لہٰذا یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے کہ ہامان نام کا مصر میں کوئی شخص تھا ہی نہیں۔ یہ تو کسی ایرانی بادشاہ کے ایک درباری کا نام ہے اور قرآن نے غلطی سے ہامان کو مصری قرار دیا ہے۔

آئیے ہم اس بات کا مدرک دیکھتے ہیں کہ ایرانی وزیر کا نام ہامان تھا؟ اس کا مدرک و مأخذ صرف اسرائیلی روایات ہیں۔ دیگر کسی مأخذ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

عہد قدیم سفر استیر اصحاح ۳ میں آیا ہے:

ہامان بن ہمداثا فارسی بادشاہ، خشایارشا جو داریوش کبیر کے بعد تخت و تاج کے مالک بنا، کا وزیر تھا۔ فرعون و موسیٰ علیہ السلام کے صدیوں بعد یہ ہامان بادشاہ کا مقرب تھا۔ بعد میں بادشاہ اس پر ناراض ہوا اور اسے سولی چڑھا دیا اور اس کی جگہ ایک یہودی مرد خای کو وزیر بنا دیا۔

حالانکہ قدیم ایرانی تاریخ میں اس نام کے کسی شخص کا ذکر نہیں ملتا۔ ملاحظہ ہو شبہات ورود صفحہ ۳۵۲۔

یہ صرف اس توریت کی روایت ہے جو خرافات سے پُر ہے۔ جس میں اللہ پر کذب کا بہتان ہے۔ جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ناموس کی اہانت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی کردار کشی ہے۔

اس تحریف شدہ توریت کی روایت کو قرآنی صراحت پر مقدم سمجھا جاتا ہے!!؟ لہٰذا ان تاریخی شواہد کی روشنی میں دو باتیں ثابت ہیں:

اول یہ کہ ہامان ( آمن ) نام کا ایک فرعونی، صاحب اختیار وزیر تھا۔

دوم یہ کہ ہامان نام کا ایرانی بادشاہ کا کوئی وزیر نہیں تھا اور اگر ایرانی وزیر کا نام ہامان تھا بھی تو اس قرآنی ہامان کے ساتھ کوئی تعارض نہیں ہے۔ قرآنی ہامان ، آمن کا معرب ہے اور ایرانی ہامان کا نام ہی ہامان تھا۔

علامہ حسکانی نے شواھد التنزی ل میں متعدد طرق سے حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان نقل کیا ہے:

لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْیَا عَلَیْنَا بَعْدَ شَمَاسِھَا عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَی وَلَدِھَا ۔۔۔۔

یہ دنیا اپنی دشمنی دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔

اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۲۰۹)

دوسری روایات میں حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام نے فرمایا: المستضعفین ہم ہیں۔

جابر بن عبداللہ انصاری راوی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یا بنی ھاشم انتم المستضعفون المقہورون المستذلون ۔ ( حسکانی۔ شواھد التنزیل ذیل آیت)

اے بنی ہاشم! میرے بعد تم مستضعف (بے بس) مغلوب اور ناقابل احترام ہوں گے۔


آیات 5 - 6