آیات 66 - 68
 

وَ لَوۡ اَنَّا کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ اَوِ اخۡرُجُوۡا مِنۡ دِیَارِکُمۡ مَّا فَعَلُوۡہُ اِلَّا قَلِیۡلٌ مِّنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ فَعَلُوۡا مَا یُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَشَدَّ تَثۡبِیۡتًا ﴿ۙ۶۶﴾

۶۶۔اور اگر ہم ان پر اپنے آپ کو ہلاک کرنا اور اپنے گھروں کو خیرباد کہنا واجب قرار دے دیتے تو ان میں سے کم لوگ ہی اس پر عمل کرتے حالانکہ اگر یہ لوگ انہیں کی جانے والی نصیحتوں پر عمل کرتے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور ثابت قدمی کا موجب ہوتا۔

وَّ اِذًا لَّاٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ لَّدُنَّـاۤ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿ۙ۶۷﴾

۶۷۔ اور اس صورت میں ہم انہیں اپنی طرف سے اجر عظیم عطا کرتے ۔

وَّ لَہَدَیۡنٰہُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا﴿۶۸﴾

۶۸۔اور ہم انہیں سیدھے راستے کی رہنمائی (بھی) کرتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ اَنَّا کَتَبۡنَا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم ان پر اپنی قوم کے افراد کو قتل کرنے یا ان کو اپنے گھروں سے نکلنے کا حکم دیتے جو ان کی ذاتی خواہشات کے خلاف پرمشقت کام ہے تو یہ اس حکم کی تعمیل نہ کرتے۔ حکم صرف ان کے اپنے مفاد کے مطابق ہو تو یہ ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ جان دینے یا گھر بار چھوڑنے کا حکم ہو تو راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ جیسے بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی کی سزا میں حکم دیا تھا کہ اپنے ہی لوگوں کو قتل کرو۔

۲۔ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ فَعَلُوۡا مَا یُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَشَدَّ تَثۡبِیۡتًا: اگر یہ لوگ نصیحتوں پر عمل کرتے تو ان کے حق میں بہتر اور ثابت قدمی کا موجب بنتا۔ اس سے معلوم ہوا، اللہ کے احکام کی تعمیل سے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ احکام الٰہی کی تعمیل سے نفس میں اعتماد بحق بحال ہوتا ہے، ورنہ اضطراب کا شکار رہتا ہے۔

۳۔ وَّ اِذًا لَّاٰتَیۡنٰہُمۡ: اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہوتے تو ہم انہیں اجر عظیم دیتے۔ جس اجر کو اللہ نے عظیم قرار دیا ہے، وہ قابل وصف و بیان کی حدود سے خارج ہے۔

۴۔ وَّ لَہَدَیۡنٰہُمۡ: احکام الٰہی کی تعمیل کا دوسرا اثر ہدایت میں اضافہ ہے۔ چنانچہ برائی، برائی کو جنم دیتی ہے اور گناہ موجب ضلالت ہوتا ہے۔ اسی طرح نیکی، نیکی کو جنم دیتی ہے اور موجب ہدایت بن جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ احکام خدا کی تعمیل سے شخصیت میں ثبات آتا ہے۔


آیات 66 - 68