آیت 37
 

قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ تُرۡزَقٰنِہٖۤ اِلَّا نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمَا ؕ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ ؕ اِنِّیۡ تَرَکۡتُ مِلَّۃَ قَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ یوسف نے کہا: جو کھانا تم دونوں کو دیا جاتا ہے وہ ابھی آیا بھی نہ ہو گا کہ میں اس کی تعبیر تمہیں بتا دوں گا قبل اس کے کہ وہ کھانا تمہارے پاس آئے، یہ ان (تعلیمات) میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی ہیں، میں نے اس قوم کا مذہب ترک کر دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ: حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: جو کھانا تمہیں دیا جاتا ہے اس کی حقیقت کھانا آنے اور اسے دیکھنے سے پہلے بتا دوں گا کہ کھانا کہاں سے آ رہا ہے، کس قسم کا کھانا ہے، سرد ہے یا گرم، حلال ہے یا حرام، لذیذ ہے یا نہیں۔ بِتَاْوِيْـلِہٖ میں ضمیر طعام کی طرف ہے اور طعام کی تاویل سے مراد اس کے تفصیل ہے۔ اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے ان دونوں کو پہلے اعتماد میں لیا کہ میں یہ سب کچھ جانتا ہوں ، صرف خوابوں کی تعبیر نہیں۔

۲۔ مِمَّا عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اس علم کا حوالہ بھی بتا دیا کہ یہ علم مجھے اللہ نے دیا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح کر دی کہ میرا علم روایتی نہیں ، ملکوتی ہے۔

۳۔ اِنِّیۡ تَرَکۡتُ مِلَّۃَ : حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا ان دو قیدیوں میں ایک قسم کا حسن ظن پیدا ہو گیا ہے لہٰذا مزید اعتماد کے لیے اپنا علمی مقام و مأخذ بیان فرماتے ہیں تاکہ ایسی سازگار فضا وجود میں آ جائے جس میں اصل مدعا ’’تبلیغ توحید‘‘ بیان کر سکیں۔ اس کے بعد کافروں سے بیزاری کا اعلان فرماتے ہیں۔ اگلی آیت میں اپنا مذہب، حسب و نسب بیان کرتے ہیں۔


آیت 37