آیات 82 - 83
 

فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۬ۙ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۸۲﴾

۸۲۔ پس جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس (بستی) کو تہ و بالا کر دیا اور اس پر پختہ مٹی کے پتھروں کی لگاتار بارش برسائی۔

مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ ؕ وَ مَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ بِبَعِیۡدٍ﴿٪۸۳﴾

۸۳۔ جن پر آپ کے رب کے ہاں (سے) نشانی لگی ہوئی تھی اور یہ (عذاب) ظالموں سے (کوئی) دور نہیں۔

تشریح کلمات

سِجِّیۡلٍ:

سنگ گِل کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ لفظ فارسی سے معرب ہے۔

مَّنۡضُوۡدٍ:

( ن ض د ) کسی چیز کو تہ بہ تہ رکھے جانے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا: ممکن ہے یہ عذاب آتش فشانی کے دھماکے کے ساتھ آیا ہو جس میں زلزلہ بھی ہوتا ہے ، زمین کو الٹ کر تہ و بالا بھی کر دیا جاتا ہے اور آتش فشانی کی وجہ سے اوپر سے پتھروں کی بارش بھی ہو سکتی ہے۔

۲۔ مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ: اور ہر پتھر پر نشانی کی کیا تفصیل ہے؟ آیت اس سلسلے میں خاموش ہے اور ظن و تخمین کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کہتے ہیں : آج تک بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔

۳۔ الظّٰلِمِیۡنَ: میں الف لام اس نوعیت کی زیادتی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اس نوعیت کے جرائم پر اس قسم کا عذاب بعید نہیں ہے: مَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ بِبَعِیۡدٍ ۔


آیات 82 - 83