آیات 25 - 26
 

اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ کِفَاتًا ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ کیا ہم نے زمین کو قرار گاہ نہیں بنایا،

اَحۡیَآءً وَّ اَمۡوَاتًا ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ زندوں کے لیے اور مردوں کے لیے،

تشریح کلمات

الکفتُ:

( ک ف ت ) کے معنی کسی چیز کو جمع کرکے قبضے میں لے لینے کے ہیں۔ کفات کے معنی تیزی سے پرواز کرنے کے بھی کیے گئے ہیں۔ اسی طرح تیزی سے ہانکنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ نَجۡعَلِ: اللہ تعالیٰ نے زمین کو جائے قرار بنایا ہے۔ زندوں کے لیے جائے قرار اس طرح ہے کہ یہ زمین مہربان ماں کی طرح اپنے دامن میں انسان کو پالتی ہے، زندگی کے سارے وسائل فراہم کرتی ہے اور جب انسان مر جاتا ہے تو زمین انسان کو اپنے شکم میں لے لیتی ہے اور اسے اپنے میں چھپا کر اس کے مرنے کے بعد احترام کو برقرار رکھتی ہے۔ ورنہ اگر زمین اپنے شکم میں انسان کو چھپا نہ لیتی تو مرنے کے بعد اس کا احترام برقرار نہ رہتا۔ مرنے کے بعد زمین کا انسان کو اپنے شکم میں قبول کرنا احترام ہے۔

ایک عبرت انگیز واقعہ

سنہ ۲۰۰۵ء میں جب کشمیر میں زلزلہ آیا افواج پاکستان مرنے والوں کو دفن کر رہی تھی۔ مولانا سبحانی صاحب ناقل ہیں کہ ان کے برادر بزرگ فوج میں افسر ہیں۔ مرُدوں کو دفن کر رہے تھے۔ ایک جنازے کو دفن کیا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا۔ قبر سے باہر پھینک دیا۔ دوبارہ قبر میں رکھا پھر باہر پھینک دیا۔ انہوں نے اس جنازے کو دریا میں پھینک دیا تو دریا نے بھی قبول نہ کیا۔ پاس ایک عورت رو رہی تھی۔ اس سے پوچھا یہ جنازہ کس کا ہے؟ اس عورت نے بتایا: یہ میرا باپ ہے۔ اس کے میرے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ اس سے تین بچے ہیں۔ اس واقعہ کے مطابق زمین اس شخص کو احترام دینے کے لیے آمادہ نہ تھی۔

کفات کے ایک معنی تیزی سے پرواز کرنے کے بھی ہیں۔ لہٰذا اس آیت سے حرکت زمین کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ زمین فضا میں محو پرواز ہے لیکن یہ معنی مراد لینا درست نہ ہوگا کیونکہ زمانۂ نزول قرآن، جو زمانہ خطاب ہے، میں لوگ حرکت زمین سے واقف نہ تھے کہ ان سے کہا جائے: کیا ہم نے زمین کو حالت حرکت و پرواز میں قرار نہ دیا؟ نیز اَحۡیَآءً وَّ اَمۡوَاتًا بھی قرینہ ہے کہ اس سے’’حرکت‘‘ مراد نہیں ہے۔


آیات 25 - 26