آیت 80
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَیۡلَکُمۡ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۚ وَ لَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور جنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے: تم پر تباہی ہو! اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کے لیے اس سے کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والے ہی حاصل کریں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ: جو لوگ راز حیات کا علم رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ صرف مال و منال خوش قسمتی نہیں ہے، نہ ہی ایسے لوگ خوشحال ہوتے ہیں بلکہ دولت مند لوگ بے چین اور بے سکون ہوتے ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ دولت انسان سے سکون چھین لیتی ہے۔ ایک شخص کو دنیا بھر کی دولت مل جائے وہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بے سکون ہو گا۔ اس سے یہ راز بھی منکشف ہو جاتا ہے کہ انسان اس دنیا کی آسائش کے لیے پیدا نہیں ہوا ورنہ دنیا کی دولت و آسائش سے ایسا سکون ملتا جیسے مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے۔

چنانچہ آیت میں اس جگہ علم والوں کا حوالہ دیا کہ جن کو علم دیا گیا ہے وہ مال و دولت کے بارے میں وہ موقف نہیں ر کھتے جو دنیا دار لوگ رکھتے ہیں۔

۲۔ وَیۡلَکُمۡ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا: علم رکھنے والا ثواب اور مال دنیا میں موازنہ کر سکتا ہے چونکہ دونوں چیزیں اس کے سامنے ہیں۔ علم کی تیز نگاہ ان دونوں میں موازانہ کر سکتی ہے، پھر موقف بنا سکتی ہے۔ وہ علمی موقف یہ ہو گا: جو ثواب اہل ایمان اور عمل صالح کے لیے اللہ کے پاس ہے وہ اس مال و دولت سے بہتر ہے جو اس انسان سے موجود سکون کو بھی چھین لیتی ہے۔

۳۔ وَ لَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوۡنَ: یہ ثواب ان لوگوں کو مل سکے گا جو مال و دولت سے محرومی پر صبر کرتے اور اسی صبر سے اپنی خواہشات پر تسلط رکھتے ہیں۔

وَ لَا یُلَقّٰہَاۤ میں ضمیر ثواب کی طرف ہے۔ ثواب مثوبۃ کے معنی میں ہے یا اس کلمہ کی طرف ہے جو اہل علم نے کہا۔ وہ کلمہ ثواب خیر ہے۔

اہم نکات

۱۔ علم ہی دولت کی قدروں کا تعین کر سکتا ہے۔


آیت 80