آیت 79
 

فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ فِیۡ زِیۡنَتِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا یٰلَیۡتَ لَنَا مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ قَارُوۡنُ ۙ اِنَّہٗ لَذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ﴿۷۹﴾

۷۹۔(ایک روز) قارون بڑی آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو دنیا پسند لوگوں نے کہا: اے کاش! ہمارے لیے بھی وہی کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، بے شک یہ تو بڑا ہی قسمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ فِیۡ زِیۡنَتِہٖ: ایک روز قارون بڑی آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے آیا۔ اس میں اس نے اپنی دولت کی نمائش کی اور اپنی ثروت کا مظاہرہ کیا۔

دولت کی اس نمائش کی نوعیت کیا تھی؟ اسرائیلیات پر مبنی بڑی کہانیاں آپ کو پڑھنے کو ملیں گی لیکن ہم اس کی نوعیت کی طرف نہیں جاتے۔ قرآن کی صراحت سے اتنا ضرور علم ہوتا ہے کہ قارون نے اپنی دولت و ثروت کا ایک قابل توجہ مظاہرہ کیا تھا۔

ثروت مند لوگ مختلف مناسبات میں، مثلاً شادیوں میں اپنی دولت کا مظاہرہ کیا کرتے ہیں جس سے وہ اپنی شخصیت کا قد بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادھر مادی سوچ رکھنے والے متاثر ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کو عظیم سمجھتے ہیں اور کچھ غریب لوگوں میں احساس محرومیت بڑھ جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کے دلوں میں حسرت پیدا ہوتی ہے کاش ہم بھی اس شخص کی طرح ثروت مند ہوتے۔ کچھ لوگوں کے دلوں میں جذبہ انتقام بیدار ہو جاتا ہے۔ کچھ کے دلوں میں حسد پیدا ہوتا ہے۔

۲۔ قَالَ الَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا: دنیا پرست، سطحی سوچ رکھنے والے اور راز حیات سے ناواقف لوگ دنیا کے مال و منال کو ہی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشروں میں بھی ایسے ثروت مند لوگوں کو خوش حال کہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے صرف دنیا کی زندگی ہے۔ وہی لوگ دل میں یہ حسرت رکھتے ہیں: کاش ہمیں بھی قارون کی طرح کی دولت حاصل ہو جاتی۔


آیت 79