آیات 67 - 68
 

وَ اَخَذَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوا الصَّیۡحَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دِیَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ ﴿ۙ۶۷﴾

۶۷۔اور جنہوں نے ظلم کیا تھا انہیں ایک ہولناک چنگھاڑ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔

کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوۡدَا۠ کَفَرُوۡا رَبَّہُمۡ ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّثَمُوۡدَ ﴿٪۶۸﴾

۶۸۔ گویا وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، واضح رہے ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا آگاہ رہو! ثمود کی قوم کے لیے (رحمت حق سے) دوری ہو۔

تفسیر آیات

سورہ اعراف آیت ۷۸ میں اس واقعے کا ذکر ہو چکا ہے اس فرق کے ساتھ کہ وہاں الرَّجۡفَۃُ زلزلے کا لفظ آیا ہے اور یہاں الصَّیۡحَۃُ ہولناک آواز وارد ہوا ہے۔ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ زلزلے کے ساتھ ہولناک گڑگھڑاہٹ عموماً ہوا کرتی ہے۔

قصہ ہود علیہ السلام میں ایسی ہی آیت کی تشریح گزر چکی ہے۔

واضح رہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ایک آدمی نے مارا تھا۔ عذاب سب پر اس لیے آیا کہ سب اس بات پر راضی تھے۔ اسلامی تعلیمات میں جرم و نیکی پر راضی ہونا اس میں شریک ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں یہ جملہ پڑھتے ہیں :

و لعن اللّٰہ اُمَّۃ سمعت بذلک فرضیت ۔ (التہذیب ۱: ۱۱۳ زیارۃ الأربعین)

اور اس قوم پر بھی لعنت ہوجو اس ناحق قتل کی خبر سن کر اس پر خوش ہوئی۔

اہم نکات

۱۔ قوم ثمود کا ظلم ان کی ہلاکت و نابودی کا سبب بنا۔ وَ اَخَذَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوا ---


آیات 67 - 68