ناشکری، ذلت و رسوائی کا سبب


وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِہَا وَ قِثَّآئِہَا وَ فُوۡمِہَا وَ عَدَسِہَا وَ بَصَلِہَا ؕ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ ؕ اِہۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ ؕ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿٪۶۱﴾

۶۱۔ اور ( وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا : اے موسیٰ! ہم ایک ہی قسم کے طعام پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے، پس آپ اپنے رب سے کہدیجئے کہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزیں فراہم کرے، جیسے ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز، (موسیٰ نے) کہا:کیا تم اعلیٰ کی جگہ ادنیٰ چیز لینا چاہتے ہو؟ ایسا ہے تو کسی شہر میں اتر جاؤ جو کچھ تم مانگتے ہو تمہیں مل جائے گا اور ان پر ذلت و محتاجی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں مبتلا ہو گئے، ایسا اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے اور یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کیا کرتے تھے۔

61۔ اس آیت میں بنی اسرائیل کی سرکش ذہنیت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑ رہے تھے۔ حال ہی میں ایک جابر اور خونخوار حکمران سے نجات حاصل کی تھی۔ ایسے نامساعد حالات میں عزت سے جو بھی میسر آئے، صبر کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ ناشکرے من و سلویٰ جیسی ضیافت پر بھی صبر کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ چنانچہ اس نا شکری کی وجہ سے وہ ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔

مِصۡرًا سے مراد کوئی بھی شہر ہے کیونکہ یہ چیزیں شہری اور متمدن ماحول میں میسر آتی ہیں۔ اس سے مراد معروف شہر مصر لینا درست نہیں ہے۔

ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا یعنی یہ لوگ کفر اور قتل انبیاء کے مرتکب اس لیے ہوئے کہ وہ عصیان کے عادی ہو گئے تھے اور جرائم کے ارتکاب کے بعد بھی گناہ کا احساس نہیں کرتے تھے۔