دین اور دنیاوی آسائش


وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتُہَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ اس دنیاوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور پائیدار ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

60۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بڑے مفادات کے لیے چھوٹے مفادات کی اور لمبی آسائش کے لیے مختصر آسائش کی قربانی دی جائے اور عمر بھر کے آرام کے لیے وقتی درد و الم پر صبر کیا جائے۔ پھر یہ دین تم سے یہ مطالبہ بھی تو نہیں کرتا کہ تم ترک دنیا کرو، اس دین پر ایمان لا کر فقیر و محتاج بن جاؤ۔