مصلح کے لیے بنیادی شرط


قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ رَزَقَنِیۡ مِنۡہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُخَالِفَکُمۡ اِلٰی مَاۤ اَنۡہٰکُمۡ عَنۡہُ ؕ اِنۡ اُرِیۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ ؕ وَ مَا تَوۡفِیۡقِیۡۤ اِلَّا بِاللّٰہِ ؕعَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ﴿۸۸﴾

۸۸۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل کے ساتھ ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے بہترین رزق (نبوت) سے نوازا ہے، میں ایسا تو نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں میں تو حسب استطاعت فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور مجھے صرف اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے، اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

88۔ حق کے داعی کی سچائی پر بہترین دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ دوسروں سے کہتا ہے اسی پر خود بھی عمل کرتا ہے اور جن قدروں کی طرف وہ دوسروں کو بلاتا ہے وہ قدریں خود اس کے لیے سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔ لہٰذا داعی الی الحق اور مصلح ایسا نہیں کرتا کہ دوسروں کو حرام مال کھانے سے منع کرے اور خود مختلف توجیہات کر کے حرام کھائے۔

حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں:میں استحصالی نہیں ہوں، میں مصلح ہوں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان اصلاحی اقدار پر خود سب سے زیادہ کاربند ہوں اور اس دعوت و عمل کے لیے اللہ کی توفیق کا محتاج ہوں۔