بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے فجر کی،

1۔ فجر شگاف کو کہتے ہیں۔ صبح کی روشنی رات کی تاریکی چیرتی ہوئی نکلتی ہے۔ اس لیے اسے فجر کہتے ہیں۔ فجر ایک جدید دن کا آغاز ہے اور زندگی فعال ہو جاتی ہے۔ بعض کے نزدیک فجر سے مراد محرم کی پہلی تاریخ ہے۔ دس راتوں سے مراد محرم کے دس دن یا راتیں ہیں۔ بعض دیگر کے نزدیک فجر سے مراد عید ضحیٰ ہے اور دس راتوں سے مراد عید سے پہلے کی دس راتیں ہیں۔

وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور دس راتوں کی،

وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور جفت اور طاق کی،

3۔ اس میں متعدد اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک نمازیں ہیں، جو جفت اور طاق رکعتوں پر مشتمل ہیں۔ بعض کے نزدیک تہجد کی دو رکعت شفع اور ایک رکعت وتر کی نماز مراد ہے۔ اسی پر اہل بیت اطہار علیہم السلام سے روایات بھی ہیں۔ لہٰذا اس میں یہ سب مراد ہو سکتے ہیں۔

وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ ۚ﴿۴﴾

۴۔ اور رات کی جب جانے لگے۔

ہَلۡ فِیۡ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیۡ حِجۡرٍ ؕ﴿۵﴾

۵۔ یقینا اس میں صاحب عقل کے لیے قسم ہے۔

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾

۶۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟

اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾

۷۔ ستونوں والے ارم کے ساتھ،

6۔7 جس قوم عاد کو اللہ نے ہلاکت میں ڈالا، اس کو عاد اولیٰ کہتے ہیں اور عاد ارم بھی، کیونکہ ان کی نسل ارم بن سام بن نوح علیہ السلام سے چلی ہے یا یہ کہ ان کے شہر کا نام ارم تھا۔

دنیا میں اونچے ستونوں والی عمارت پہلی بار اسی قوم نے بنانا شروع کی تھی، اس لیے انہیں ذَاتِ الۡعِمَادِ (ستونوں والے) کہا گیا۔

الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾

۸۔ جس کی نظیر کسی ملک میں نہیں بنائی گئی،

وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور قوم ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں،

9۔ وادی سے مراد وادی القریٰ ہے۔ اس قوم نے تاریخ میں پہلی بار پہاڑوں کو تراش کر عمارتیں بنائی تھیں۔

وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ،

10۔ فرعون کو ”میخوں والا“ اس لیے کہا گیا کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں میں میخیں ٹھونک کر عذاب دیتا تھا۔