بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾

۱۔ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا،

وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے،

وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے،

وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور جب حاملہ اونٹنیاں ـ(اپنے حال پر) چھوڑدی جائیں گی،

وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ ۪ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور جب وحشی جانور اکھٹے کر دیے جائیں گے،

5۔ کیا جانور قیامت کے دن محشور ہوں گے؟ اس موضوع پر کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ آیت کا اشارہ اس بات کی طرف ہو کہ قیامت برپا ہوتے وقت درندے اپنے ٹھکانوں سے نکل آئیں گے اور ایک دوسرے کو گزند پہنچانا بھول جائیں گے اور اکٹھے ہو جائیں گے اور ممکن ہے وحشی جانور دنیا میں تو ایک دوسرے سے بھاگ جاتے ہیں، لیکن قیامت کی ہولناکی میں کسی اور کا خوف محسوس ہی نہ ہو گا۔ اس آیت سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جانور بھی محشور ہوں گے۔

وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ ۪ۙ﴿۶﴾

۶۔ اور جب سمندروں کو جوش میں لایا جائے گا،

6۔ سمندروں کو آگ لگنا بعید سمجھا جاتا تھا، لیکن پانی جن عناصر سے مرکب ہے وہ قابل سوزش ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن۔ ممکن ہے قیامت کی آتش فشانی سے یہ دو عناصر جدا اور آتش پکڑنے لگ جائیں۔

وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ ۪ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور جب جانیں ( جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی،

7۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد جانوں کو جسموں سے جوڑ دینا ہو اور ممکن ہے مراد یہ ہو کہ مومن مومن سے اور کافر کافر کے ساتھ جوڑ دیے جائیں گے۔

نفوس کو جسموں یا اپنے اپنے ہم خیالوں سے جوڑ دیا جائے گا۔ اصحاب یمین، اصحاب یمین کے ساتھ۔ صالح، صالح کے ساتھ۔ اصحاب شمال، اصحاب شمال کے ساتھ کر دیئے جائیں گے۔

وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا

بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ﴿۹﴾

۹۔ کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ؟

9۔ اس تعبیر میں انتہائی غضب الٰہی کا اظہار ہے کہ سوال خود بے گناہ بچی سے کیا جائے گا کہ تو کس جرم میں ماری گئی؟ مجرم باپ سے نہیں پوچھا جائے گا : یُعۡرَفُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ بِسِیۡمٰہُمۡ فَیُؤۡخَذُ بِالنَّوَاصِیۡ وَ الۡاَقۡدَامِ ۔ (الرحمن:41) یعنی مجرم لوگ اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔

وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ ﴿۪ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور جب اعمال نامے کھول دیے جائیں گے،