بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱﴾

۱۔(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہدیجئے:یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

1۔ الانفال جمع ہے نفل کی۔ اس کے معنی زائد کے ہیں۔ جو واجب کے علاوہ ہو اسے نفل کہا جاتا ہے۔ جنگی غنیمت کو انفال اس لیے کہا جاتا ہے کہ مسلمان راہ خدا میں لڑتے ہیں اور غنیمت ایک اضافی انعام ہے۔

اگرچہ انفال کا حکم جنگ بدر کی غنیمت کے بارے میں آیا، تاہم یہ حکم ہر قسم کے انفال یعنی اموال زائد کو شامل ہے۔ مثلاً متروک آبادیاں، پہاڑوں کی چوٹیاں، جنگل، غیرآباد زمینیں اور لاوارث املاک وغیرہ، جو کسی کی ملکیت نہ ہوں۔ اسی طرح وہ اموال جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے قبضے میں آئے ہوں، جنہیں فئی کہتے ہیں۔ یہ سب اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملکیت ہیں۔

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾

۲۔ مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔

2۔ غنیمت پر قابض لوگوں سے واپس لینے کے بارے میں شکایت کے سدباب کے طور پر مومن کی تعریف بیان فرمائی کہ اگر تم مومن ہو تو: ٭ تقویٰ اختیار کرو۔ ٭ آپس میں صلح و آشتی قائم رکھو۔ ٭ اللہ اور اس کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو۔

سچے مومن وہی ہیں جو: ٭ ذکر خدا کے موقع پر کانپ جاتے ہیں۔ ٭کلام اللہ کی تلاوت سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٭اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ٭نماز قائم کرتے ہیں۔ ٭راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔

الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ؕ﴿۳﴾

۳۔جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

4۔انسان مذکورہ اوصاف کا مالک ہو تو سچے مومن کی منزل پر فائز ہوتا ہے اور قرب الہٰی کے اعلیٰ درجات پر فائز ہو جاتا ہے۔ایمان کے مذکورہ اوصاف سے متصف ہونے کے بعد انسان گناہوں سے مبرا نہیں ہوتا لیکن اللہ سچے مومن کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور اس کی لغزشوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کے نیک اعمال کا اجر و ثواب دیتا ہے۔

اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ مَغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴﴾

۴۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت اور باعزت روزی ہے۔

کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ ۪ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ ۙ﴿۵﴾

۵۔ (انفال کے بارے میں صورت حال ویسے ہی ہے) جیسے آپ کے رب نے آپ کو حق کے ساتھ گھر سے (جنگ کے لیے)نکالا جبکہ (یہ امر) مومنوں کی ایک جماعت پر سخت گراں گزرا تھا۔

یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ ؕ﴿۶﴾

۶۔ حق ظاہر ہو چکنے کے بعد یہ لوگ آپ سے حق کے بارے میں الجھ رہے تھے گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہوں (جس کو) وہ دیکھ رہے ہوں۔

5۔ 6 انفال کو اللہ اور رسول کی ملکیت قرار دینا بعض لوگوں کو سخت ناگوار تھا۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر لشکر قریش کے مقابلے پر جانا سخت ناگوار گزرا اور اس کو خود کشی تصور کرتے تھے۔ لیکن دونوں جگہ حق کا تقاضا یہ تھا کہ خطرے کا مقابلہ کیا جائے اور مال غنیمت اللہ اور رسول کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

اس آیت میں نہایت شدید ترین لہجہ میں ان لوگوں کی سرزنش فرمائی جو جنگ میں شرکت کے حق میں نہ تھے اور اللہ کی طرف سے وعدہ فتح کے باوجود رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مجادلہ کرتے تھے۔ اگر یہ مجادلہ وعدہ فتح سے پہلے ہوتا تو کسی حد تک قابل فہم تھا۔ چنانچہ سرزنش و عتاب کا جو لہجہ یہاں اختیار کیا گیا ہے، وہ وہی لہجہ ہے جو مشرکین کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا بعض علماء نے تو یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں ہے۔ صاحب المنار لکھتے ہیں: وھی بہم الیق یہ مشرکین ہی کے لیے سزاوار ہے۔ لیکن بعد میں دلیل دیتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے بارے میں ہی ہے۔

واقعہ یہ تھا کہ قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ شام سے مکہ کو واپس جاتے ہوئے مدینہ کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس قافلہ کے سردار ابوسفیان کو خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی دستہ ان پر حملہ نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے مکہ کی طرف ایک آدمی کو روانہ کر دیا کہ وہاں سے مدد لے آئے۔ قریش مکہ نہ صرف اپنے قافلہ کو بچانے، بلکہ مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کی نیت سے نکلے تھے۔

وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ وَ تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ یَقۡطَعَ دَابِرَ الۡکٰفِرِیۡنَ ۙ﴿۷﴾

۷۔اور(وہ وقت یاد کرو) جب اللہ تم لوگوں سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک تمہارے ہاتھ آ جائے گا اور تم چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ آ جائے جب کہ اللہ چاہتا تھا کہ حق کو اپنے فرامین کے ذریعے ثبات بخشے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔

7۔ مسلمانوں کو یہ علم نہ تھا کہ ان کا سامنا تجارتی قافلے سے ہو گا یا لشکر قریش سے۔ اس وقت یہ نوید سنائی گئی کہ ان دو جماعتوں میں سے ایک تمہارے ہاتھ آئے گی۔ اس کے باوجود لوگ چاہتے تھے کہ قافلے پر حملہ کیا جائے اور اللہ چاہتا تھا کہ لشکر کا مقابلہ کر کے ایک فیصلہ کن جنگ کی جائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دی جائے۔

لِیُحِقَّ الۡحَقَّ وَ یُبۡطِلَ الۡبَاطِلَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۚ﴿۸﴾

۸۔تاکہ حق کو ثبات مل جائے اور باطل نابود ہو جائے خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ﴿۹﴾

۹۔(یاد کرو)جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری سن لی اور فرمایا: میں یکے بعد دیگرے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔

وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ ۚ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ اور اس مدد کو اللہ نے تمہارے لیے صرف بشارت اور اطمینان قلب کا باعث بنایا اور (یہ باور کرا یا کہ) نصرت تو بس اللہ کی جانب سے ہے، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔