بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے ان (فرشتوں ) کی جو گھس کر کھینچ لیتے ہیں۔

وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور آسانی سے نکال لیتے ہیں۔

وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور تیزی سے لپکتے ہیں۔

فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ پھر (حکم کی بجا آوری میں) خود سبقت لے جاتے ہیں۔

فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا ۘ﴿۵﴾

۵۔ پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں۔

1۔5 کہتے ہیں الف و تاء کے ساتھ فرشتوں کے لیے جمع مؤنث نہیں بنائی جاتی۔ کیونکہ یہ تو مشرکوں کا شعار ہے: لَیُسَمُّوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ تَسۡمِیَۃَ الۡاُنۡثٰی (نجم: 27) وہ فرشتوں کے نام لڑکیوں جیسے رکھتے ہیں۔ جواب یہ ہے: اصل کلام جماعۃ الملائکۃ ہے۔ لفظ جماعۃ محذوف ہے۔ قرآن میں دوسری جگہوں پر فرشتوں کے لیے الف و تاء کے ساتھ جمع بنائی گئی ہے۔ جیسے لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ (رعد : 11) میں یقیناً فرشتے مراد ہیں۔ وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا (صافات:1) میں بھی اکثر نے کہا ہے کہ فرشتے مراد ہیں۔

یہ پانچ اوصاف ان فرشتوں کے ہیں جن کی مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے چار اوصاف کے بعد پانچویں وصف یعنی تدبیر امور کی نوبت آتی ہے۔لہٰذا پہلے چار اوصاف تدبیر امور کائنات کے تمہیدی امور معلوم ہوتے ہیں۔ تدبیر امور کے سلسلے میں فرشتے اللہ کی طرف سے وحی نازل کرنے میں واسطہ ہوتے ہیں۔ امتوں پر بلا نازل کرنے کے لیے واسطہ ہوتے ہیں۔ قبر میں حساب لینے، قیامت کے دن ثواب و عقاب دینے کے لیے، جہنم کے داروغہ کے طور پر کام کرنے کے لیے ذرائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے امور فرشتوں کے ذریعے انجام پاتے ہیں، جن میں حقیقی مدبر تو خود اللہ تعالیٰ ہے، لیکن فرشتے کاتب کے ہاتھ میں قلم کی طرح ہوتے ہیں۔

سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بات پر ان فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔

یَوۡمَ تَرۡجُفُ الرَّاجِفَۃُ ۙ﴿۶﴾

۶۔ اس روز کانپنے والی کانپے گی۔

تَتۡبَعُہَا الرَّادِفَۃُ ؕ﴿۷﴾

۷۔ اس کے پیچھے دوسرا (لرزہ) آئے گا۔

7۔ پہلے جھٹکے سے مراد صور میں پھونکنا ہی ہو سکتا ہے جس سے ہر چیز تباہ ہو جائے گی اور دوسرے جھٹکے سے دوسری دفعہ صور میں پھونکنا مراد ہو سکتا ہے جس کے بعد تمام مردے زندہ ہو جائیں گے۔

قُلُوۡبٌ یَّوۡمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ ۙ﴿۸﴾

۸۔کچھ دل اس دن مضطرب ہوں گے۔

اَبۡصَارُہَا خَاشِعَۃٌ ۘ﴿۹﴾

۹۔ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔

یَقُوۡلُوۡنَ ءَاِنَّا لَمَرۡدُوۡدُوۡنَ فِی الۡحَافِرَۃِ ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ کہتے ہوں گے: کیا ہم ابتدا کی طرف پھر واپس لائے جائیں گے؟

10۔ الۡحَافِرَۃِ : سابقہ چلا ہوا راستہ۔ راستے پر زیادہ چلنے سے زمین نیچے دھنس جاتی ہے اور کھدی ہوئی لگتی ہے۔