بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ دھر

یہ سورہ جمہور کے نزدیک مدنی ہے۔ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ یہ مکی ہے، حالانکہ خود حضرت ابن عباس کی ایک اور روایت ابن ضریس، ابن مردویہ اور بیہقی نے نقل کی ہے، جس میں صریحاً مذکور ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے۔

ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا﴿۱﴾

۱۔ کیا زمانے میں انسان پر ایسا وقت آیا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟

1۔ ایک حالت تو وہ تھی جس میں زمانہ بھی موجود نہ تھا۔ حدیث میں آیا ہے: کان اللہ ولم یکن معہ شیٔ (بحار الانوار54: 233) اللہ اس حال میں بھی تھا جب کہ کچھ بھی نہ تھا۔ بعد میں زمانہ وجود میں آیا، لیکن اس طویل زمانے میں انسان موجود نہ تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ انسان کو عدم کے بعد وجود میں لایا گیا ہے۔

اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا﴿۲﴾

۲۔ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں، پس ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا۔

2۔ انسان کو مخلوط نطفہ، یعنی جرثومۂ پدر اور تخم مادر کے اختلاط سے بننے والے ابتدائی خلیہ (Cell) سے وجود میں لایا اور امتحان و ارتقاء کی خاطر اسے سمیع و بصیر بنایا گیا۔

اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا﴿۳﴾

۳۔ ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔

3۔ راہ حق دکھانے کا کام اللہ نے اپنے ذمے لیا۔ اس پر چلنے کا کام انسان کے ذمے ڈال دیا گیا اور اس کو راہ حق پر چلنے پر مجبور نہیں کیا گیا، بلکہ اس کو خود مختاری دے دی گئی۔

اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَلٰسِلَا۠ وَ اَغۡلٰلًا وَّ سَعِیۡرًا﴿۴﴾

۴۔ ہم نے کفار کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا ۚ﴿۵﴾

۵۔ نیکی کے مرتبے پر فائز لوگ ایسا مشروب پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔

5۔ 5 سے 22 تک کی آیات اہل بیت علیہ السلام رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں نازل ہوئیں۔

عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا﴿۶﴾

۶۔ یہ ایسا چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور خود اسے (جیسے چاہیں) جاری کر دیں گے۔

6۔ ان چشموں کو خود اپنے ہاتھ سے اپنی پسند کے مطابق جاری کریں گے۔

یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا﴿۷﴾

۷۔ جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔

وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا﴿۸﴾

۸۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔

عَلٰی حُبِّہٖ : ضمیر طعام کی طرف راجع ہے، جیسا کہ لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ (آل عمران : 92) کے تحت درجہ اس انفاق کو ملتا ہے جس میں اپنی پسند کی چیز دے دی جائے۔

اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا﴿۹﴾

۹۔ (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔

9۔ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں جو فضائل ان آیات میں بیان ہوئے ہیں، سب اس موقع پر بیان ہوئے، جب اہل بیت علیہم السلام نے ایثار و قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کرتے ہوئے مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا۔ اس سے ہمیں ایک درس یہ ملتا ہے کہ اللہ کو غریب پروری کس قدر پسند ہے۔ اسی لیے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں غریب پروری سرفہرست نظر آتی ہے۔ چنانچہ آیہ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ۔۔۔۔ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان بھی اسی غریب پروری کے موقع پر کیا ہے اور اس سورہ کی آیت 20 میں یکایک رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطاب کر کے فرمایا: ”اور آپ جہاں بھی نگاہ ڈالیں گے، بڑی نعمت اور عظیم سلطنت نظر آئے گی۔“ جنت میں اہل بیت علیہم السلام کی سلطنت کو اللہ نے عظیم فرمایا تو اس سلطنت کی عظمت کا کسی کو کیا اندازہ ہو سکتا ہے، جسے اللہ نے عظیم کہا ہے۔

اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا﴿۱۰﴾

۱۰۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف ہے جو شدید بدمنظر ہو گا۔