بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم کھاتا ہوں روز قیامت کی۔

وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾

۲۔ قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس (زندہ ضمیر) کی،

2۔ قیامت کے دن انسانی نفس اپنے کیے پر ملامت کرے گا۔ اس لیے نفس لوامہ کی قسم کھائی ہے۔ نفس لوامہ کو ہم ضمیر اور وجدان بھی کہتے ہیں، کیونکہ کسی جرم کے ارتکاب کی صورت میں انسان اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہوتا ہے، جہاں نہ کسی کی سفارش چلتی ہے، نہ کسی کا زور۔ کیونکہ جرم کا ارتکاب اسی ضمیر کے سامنے ہوا ہے جس نے فیصلہ سنانا ہے۔ یہ عدالت آخرت میں قائم ہونے والی عدالت کا ایک چھوٹا نمونہ ہے۔

اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجۡمَعَ عِظَامَہٗ ؕ﴿۳﴾

۳۔ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟

بَلٰی قٰدِرِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ﴿۴﴾

۴۔ ہاں! (ضرور کریں گے) ہم تو اس کی انگلیوں کی پور بنانے پر بھی قادر ہیں۔

4۔ کل کے ملحد اور آج کے نیچر پرستوں (مادہ پرستوں) کا یہ گمان ہے کہ جب ہڈیاں خاک میں دوسری ہڈیوں سے مل جائیں یا کسی جانور کی غذا بن کر اس کی ہڈیوں کا حصہ بن جائیں تو اللہ ان کو کیسے جدا کرے گا؟ جواب میں ایک عام فہم اور محسوس مثال پیش فرمائی کہ جو ذات ایک ہاتھ کی پور پور کو جدا کر کے بنا سکتی ہے، وہ ذات ہڈیوں کے ذرات کو پہچان سکتی ہے۔ ہم یہ کہیں گے: جو ذات ہر شخص کی پوروں کی لکیروں کو جدا جدا بناتی ہے وہ ہر شخص کی ہڈیوں کے ذرات کو بھی پہچان سکتی ہے۔

بَلۡ یُرِیۡدُ الۡاِنۡسَانُ لِیَفۡجُرَ اَمَامَہٗ ۚ﴿۵﴾

۵۔ بلکہ انسان چاہتا ہے کہ مستقبل میں (عمر بھر) برائی کرتا جائے۔

یَسۡـَٔلُ اَیَّانَ یَوۡمُ الۡقِیٰمَۃِ ؕ﴿۶﴾

۶۔ وہ پوچھتا ہے: قیامت کا دن کب آئے گا۔

فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ ۙ﴿۷﴾

۷۔ پس جب آنکھیں پتھرا جائیں گی،

وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۸﴾

۸۔اور چاند بے نور ہو جائے گا،

وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور سورج اور چاند ملا دئیے جائیں گے،

یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ تو انسان اس دن کہے گا: بھاگ کر کہاں جاؤں؟