بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙ﴿۱﴾

۱۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضے میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔

2۔ اس آیت سے بظاہر یہ بات سامنے آتی ہے کہ حسن عمل ہی غرض تخلیق کائنات ہے، لہٰذا جو ہستی حسن عمل کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو، وہی غرض تخلیق میں بھی اعلیٰ ترین مقام کی حامل ہو گی۔ اگر یہ نکتہ آپ کی سمجھ میں آ جائے تو آپ یہ فرمان بھی بآسانی سمجھ لیں گے: لولاک لما خلقت الافلاک ۔ (مناقب 1: 216) یعنی (اے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! اے مجسمۂ احسن عمل) اگر تو نہ ہوتا تو میں اس کائنات کو خلق نہ کرتا۔

الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ﴿۳﴾

۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟

3۔ 4 یعنی رحمن کی تخلیق میں تفاوت نہیں ہے۔ بدنظمی نہیں ہے۔ سورج کی دھوپ سے سمندر سے بخار اٹھتا ہے، بادل وجود میں آتے ہیں، ہوا بادل کو چلاتی ہے، خشک علاقوں میں بارش برستی ہے۔ دانے اور میوے اگتے ہیں، دستر خوانوں کی زینت بنتے ہیں، غذا بن جاتے ہیں، پھر خون بن جاتے ہیں۔ یہ خون تحلیل شدہ جسم کی تلافی کر کے اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پھر تحلیل ہو کر کاربن کی شکل میں کسی درخت کا حصہ بن جاتے ہیں وہ درخت پھل دیتا ہے۔ یہ دورہ پھر شروع ہوتا ہے۔ دیکھو: ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ۔ کیا اس گردش میں کوئی خلل ہے؟

رحمٰن کی تخلیق کے بارے میں اس آیت اور بعد کی آیت میں بار بار اللہ تعالیٰ کی صناعی کا مطالعہ کرنے کا حکم ہے کہ تلاش کرو، اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نظام میں کہیں خلل نظر آتا ہے؟ اپنی تحقیق کو جاری رکھو۔ کَرَّتَیۡنِ بار بار تحقیق کرو۔ كَرَّتَيْنِ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ کی طرح ہے۔ صرف دو مرتبہ کے لیے نہیں، بار بار کرنے کے لیے ہے۔ آخرکار تحقیق کنندہ کائنات میں کوئی خلل نہیں پا سکے گا۔

خَاسِئًا : ناکام ہو جانا۔ حَسِیۡرٌ تھک جانا۔ یعنی نگاہیں اس کائنات میں خلل تلاش کرنے میں ناکام رہ جائیں گی۔

ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ پھر پلٹ کر دوبارہ دیکھو تمہاری نگاہ ناکام ہو کر تھک کر تمہاری طرف لوٹ آئے گی۔

وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ جَعَلۡنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ وَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابَ السَّعِیۡرِ﴿۵﴾

۵۔ اور بے شک ہم نے قریب ترین آسمان کو (ستاروں کے) چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے،

5۔ یہ بات بھی ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ یہی نجوم رجوم شیاطین ہیں۔ممکن ہے اس صورت میں رجوم شیاطین انہی نجوم کے انفجار سے وجود میں آتے ہوں۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔

اس آیت سے یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ جو ستارے ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں وہ سب آسمان اول سے متعلق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قریب ترین آسمان کو ستاروں سے آراستہ کیا ہے۔ اس کے بعد کے آسمانوں کے بارے میں انسان کو کوئی معلومات نہیں ہیں۔

وَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۶﴾

۶۔ اور جنہوں نے اپنے رب کا انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔

اِذَاۤ اُلۡقُوۡا فِیۡہَا سَمِعُوۡا لَہَا شَہِیۡقًا وَّ ہِیَ تَفُوۡرُ ۙ﴿۷﴾

۷۔ جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو اس کے بھڑکنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہو گی۔

تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ کُلَّمَاۤ اُلۡقِیَ فِیۡہَا فَوۡجٌ سَاَلَہُمۡ خَزَنَتُہَاۤ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَذِیۡرٌ﴿۸﴾

۸۔ قریب ہے کہ شدت غیظ سے پھٹ پڑے جب بھی اس میں کوئی گروہ (کافروں کا) ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے کارندے پوچھیں گے: کیا تمہارے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا؟

قَالُوۡا بَلٰی قَدۡ جَآءَنَا نَذِیۡرٌ ۬ۙ فَکَذَّبۡنَا وَ قُلۡنَا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۚۖ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ کَبِیۡرٍ﴿۹﴾

۹۔ وہ جواب دیں گے: ہاں تنبیہ کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے (اسے) جھٹلا دیا اور ہم نے کہا: اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے، تم لوگ بس ایک بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور وہ کہیں گے: اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم جہنمیوں میں نہ ہوتے۔

10۔ یعنی اگر ہم عقل سے کام لیتے اور دعوت انبیاء پر تعصب اور تنگ نظری کی عینک اتار کر غور کرتے تو آج ہمارا یہ حشر نہ ہوتا۔ اس لیے اسلام نے عقل سے کام لینے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں آیا ہے: تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ سنۃ ۔ (مستدرک الوسائل 11: 183) ایک گھڑی کے لیے فکر سے کام لینا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: من کان عاقلا کان لہ دین و من کان لہ دین دخل الجنۃ (الکافی 1: 11) جو عاقل ہو گا وہ دیندار ہو گا۔ جو دیندار ہو گا وہی جنت میں جائے گا۔