بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب کرے۔

1۔ قسم ہے ستارے کی۔ اللہ ستاروں کی قسم کھانے کو اہمیت دیتا ہے۔ سورئہ واقعہ آیت 75۔76 میں فرمایا: فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿﴾ وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ۔ مجھے ستاروں کے مقامات کی قسم ہے اگر تم جانتے ہو تو یہ بڑی قسم ہے۔

مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾

۲۔ تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔

صَاحِبُکُمۡ ۔ صاحب یعنی ساتھی، رفیق۔ ایک محاورہ ہے، جہاں کوئی اور رشتہ بتانا منظور نہ ہو تو وہاں صَاحِبُکُمۡ کہتے ہیں جیسے ہم ”تمہارا یار“ کہتے ہیں۔

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾

۳۔ وہ خواہش سے نہیں بولتا۔

3۔ تمہارا رفیق جو باتیں بیان کرتا ہے وہ صرف وحی ہے، اس کی اپنی خواہش کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ بھٹکتا بہکتا وہ ہے جس پر ذاتی خواہش حاکم ہو۔ آیت کے اطلاق میں وہ تمام فرامین شامل ہیں جو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی امت سے بیان فرمائے ہیں۔ اگر وحی اسلوب کلام و معانی میں بطور معجزہ نازل ہوئی ہے تو وہ قرآن ہے، ورنہ سنت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں لوگوں نے سنت کی تدوین کی مخالفت کی تو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اکتبوا فو الذی نفسی بیدہ ما خرج منی الا الحق ۔ (سنن الدارمی حدیث 484 باب کتابۃ العلم) لکھو! جس ذات کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی قسم! میری زبان سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلی۔ مگر ستم یہ کہ حدیث کی تدوین پر حکمرانوں کی طرف سے دوسری صدی ہجری تک پابندی رہی۔ البتہ اہل بیت علیہ السلام کے پیروکاروں کے ہاں عصر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی میں حدیث کی تدوین املاء من رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و بخط علی علیہ السلام ہوئی۔ جو کتاب علی کے نام سے مشہور ہے۔ بدقسمتی سے معاندانہ پروپیگنڈوں نے اس خصوصیت کو طعن میں بدلنے کی کوشش کی اور مشہور کیا گیا کہ ان کے ہاں ستر گز کا قرآن الگ ہے۔ معاذ اللہ۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے مصر کے دانشمند عبد الحلیم الجندی کی کتاب الامام الصادق علیہ السلام کا مطالعہ فرمائیں۔

اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾

۴۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔

عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ۙ﴿۵﴾

۵۔ شدید قوت والے نے انہیں تعلیم دی ہے

ذُوۡ مِرَّۃٍ ؕ فَاسۡتَوٰی ۙ﴿۶﴾

۶۔ جو صاحب قوت پھر (اپنی شکل میں) سیدھا کھڑا ہوا۔

وَ ہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور جب وہ بلند ترین افق پر تھے ۔

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ﴿۸﴾

۸۔ پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے،

فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی ۚ﴿۹﴾

۹۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا۔

فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ پھر اللہ نے اپنے بندے پر جو وحی بھیجنا تھی وہ وحی بھیجی۔