بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۱﴾

۱۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈالی اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔

1۔ سورئہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلاوت کے بارے میں صادق آل محمد علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: من اراد ان یعرف حالنا و حال اعدائنا فلیقرأ سورۃ محمد فانہ یراھا آیۃ فینا و آیۃ فی اعدائنا ا۔ جو ہمارے اور ہمارے دشمنوں کا حال معلوم کرنا چاہے تو اسے سورہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلاوت کرنی چاہیے، وہ اس کی ایک آیت ہماری شان میں اور ایک آیت ہمارے دشمن کے بارے میں پائے گا۔ (روح المعانی۔ الدر المنثور)

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ﴿۲﴾

۲۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال بجا لائے اور جو کچھ محمدؐ پر نازل کیا گیا ہے اس پر بھی ایمان لائے اور ان کے رب کی طرف سے حق بھی یہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ ان سے دور کر دئیے اور ان کے حال کی اصلاح فرمائی۔

2۔ اس آیت کی ابتدا میں جس ایمان کا ذکر ہے وہ ہر صدق دل سے کلمہ پڑھنے والے پر صادق آ سکتا ہے۔ لیکن بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ جو کچھ محمد پر نازل کیا گیا ہے، اس پر ایمان لانا مشکل امر ہے۔ چونکہ اس ایمان کا تعلق زندگی میں پیش آنے والے ہر مسئلہ کے ساتھ ہے۔ چنانچہ سورہ حشر آیت 7 میں جنگی غنائم اور کفار سے بغیر جنگ کے ہاتھ آنے والے اموال کی تقسیم کے حکم کے بعد فرمایا: وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ رسول جو تمہیں دے دیں، وہ لیا کرو اور جس سے روک دیں اس سے رک جایا کرو۔ اس جگہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کی تعمیل کی تاکید سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ مالی معاملات میں مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ پر عمل کرنے اور بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ پر ایمان لانا مشکل امر ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا اتَّبَعُوا الۡبَاطِلَ وَ اَنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الۡحَقَّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ اَمۡثَالَہُمۡ﴿۳﴾

۳۔ یہ اس لیے ہے کہ کفار نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اس حق کی اتباع کی جو ان کے رب کی طرف سے ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح لوگوں کے لیے ان کے اوصاف بیان فرماتا ہے۔

3۔ سابقہ دو آیات میں فرمایا: کافروں کی ساری کوششیں لاحاصل ہیں اور مومنوں کی کوششیں بارآور ہیں۔ اس آیت میں فرمایا: اس کامیابی و ناکامی کی بنیاد وہ دستور ہے جس کی اتباع طرفین کرتے ہیں۔ کفار باطل کی اتباع کرتے ہیں، جن کا مقدر تباہی و نابودی ہے اور مومنین حق کی اتباع کرتے ہیں جن کو ثبات و دوام حاصل ہے۔

فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ۬ۚ۟ۛ ذٰؔلِکَ ؕۛ وَ لَوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانۡتَصَرَ مِنۡہُمۡ وَ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَا۠ بَعۡضَکُمۡ بِبَعۡضٍ ؕ وَ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَلَنۡ یُّضِلَّ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۴﴾

۴۔ پس جب کفار سے تمہارا سامنا ہو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کر چکو تو (بچنے والوں کو) مضبوطی سے قید کر لو، اس کے بعد احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر (چھوڑ دو) تاوقتیکہ لڑائی تھم جائے، حکم یہی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لیتا لیکن (اللہ کو یہ منظور ہے کہ) تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعے سے لے اور جو لوگ راہ خدا میں شہید کیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز حبط نہیں کرے گا۔

4۔ جو راہ خدا میں شہید ہو جاتے ہیں، ان کے اعمال کے اثرات تادیر جاری رہیں گے اور حبط کی کوئی نوبت نہیں آئے گی۔

جنگی حکمت عملی کے تحت لڑائی میں فتح و شکست کا فیصلہ ہونے سے پہلے قیدی بنانے کی ممانعت ہے، ورنہ عین لڑائی کے دوران قیدی بنانا شروع کیا جائے تو اولاً لشکر کی طاقت کا ایک حصہ قیدی بنانے پر صرف ہو جائے گا، اس طرح طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے، ثانیاً چونکہ قیدی بننے کا خطرہ قتل ہونے سے کمتر ہے، اس لیے دشمن کو اس سے نفسیاتی طور پر فائدہ مل سکتا ہے۔ ثالثاً یہ بات جنگی عمل کے بھی منافی ہے کہ دشمن قتل کرے اور ادھر قتل کی جگہ دشمن کو قید کیا جائے۔ اس طرح اسلام کی جنگی حکمت عملی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ لڑائی کے دوران قیدی نہ بناؤ اور لڑائی کے بعد قیدی کو قتل نہ کرو۔ یہ ہدایت اس لیے دی گئی ہے تاکہ وہ فدیہ حاصل کرنے یا غلام حاصل کرنے کے لالچ میں اصل مقصود کو فراموش نہ کریں۔ واضح رہے اسلام کے نزدیک انسان بذات خود آزاد ہے۔ غلامی کی صرف ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ کفر و اسلام کی جنگ میں کافر میدان جنگ میں قیدی بن جائے تو امام کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے بلا معاوضہ آزاد کر دے یا فدیہ لے کر آزاد کر دے یا اسے غلام بنائے۔ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر کا مطالعہ فرمائیں۔

سَیَہۡدِیۡہِمۡ وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ ۚ﴿۵﴾

۵۔ وہ عنقریب انہیں ہدایت دے گا اور ان کی حالت کی اصلاح فرمائے گا۔

5۔ اللہ اپنے بلند درجات کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے گا۔

وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ : ان کی حالت کو درست کر دے گا۔ اگر کسی سے گناہ سرزد ہوا ہے تو اس کی مغفرت کر کے، اگر دیگر اعمال میں کوتاہی ہے تو اس کی تلافی سے ان شہیدوں کی حالت کو بہتر کر دیا جائے گا۔

وَ یُدۡخِلُہُمُ الۡجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمۡ﴿۶﴾

۶۔ اور انہیں جنت میں داخل کرے گا جس کی انہیں پہچان کرا دی ہے۔

عَرَّفَہَا لَہُمۡ : اس جنت میں داخل کیے جائیں گے جس کی پہلے سے ان کو خوشخبری دے کر ان کے اوصاف بیان کر دیے گئے ہوں گے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَکُمۡ﴿۷﴾

۷۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

7۔ مقام تکلیف میں اللہ پہل نہیں کرتا، بلکہ بندے کا پہل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا: پہلے تم اللہ کی مدد کرو اور اپنے اندر اللہ کی نصرت کی قابلیت و اہلیت پیدا کرو تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور مدد کی نوعیت بھی یہ نہ ہو گی کہ اللہ خود دشمنوں کو نابود کر دے گا، بلکہ نصرت کی نوعیت یہ ہو گی کہ یہ کام بھی خود بندوں سے لیا جائے گا۔ یعنی ان کو ثابت قدمی دے کر۔ اللہ چاہے تو خود ہی دشمنوں کو نابود کر سکتا ہے، مگر اللہ اپنے بندوں کو آزمائش کے ذریعہ مرتبہ دینا چاہتا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۸﴾

۸۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کے لیے ہلاکت ہے اور (اللہ نے) ان کے اعمال کو برباد کر دیا ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَرِہُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۹﴾

۹۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اسے ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا پس اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ دَمَّرَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ۫ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡثَالُہَا﴿۱۰﴾

۱۰۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ وہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے والوں کا کیا انجام ہوا؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈالی اور کفار کا انجام بھی اسی قسم کا ہو گا۔